تحریر شازیہ عندلیب
خالق کائنات کے مقدس گھر میں جانے کے لیے دل کی تڑپ اور روحانی بیقراری کی ضرورت ہوتی ہے۔بقول مفکروں کے دل تو خدا کا گھر ہے جبکہ روح اس کا در ہے۔مگر ہم میں سے اکثر لوگ اس گھر کو دنیاوی خواہشات سے بھر دیتے ہیں۔یہاں تک کہ اس گھر میں صرف مادی گھر کے دروازے کھل جاتے ہیں اور روحانی دنیا کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں حج کرنے وہی جاتا ہے جسے اس گھر کا بلاوہ آتا ہے۔یہ بات بھی کافی حد تک صحیح ہے۔کئی لوگ کئی برس اور تمام عمر اس سعادت کے انتظار میں گزار دیتے ہیں۔خصوصًا پاکستانیوں کی اکثریت عمر کے آخری حصہ میں ہی اس فریضہ کی ادائیگی کرتی ہے۔خوشقسمتی سے میری یہ خواہش زیادہ پرانی نہیں تھی۔میں نے تین برس پہلے یہ خواہش کی اور چوتھے برس میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی مقدس سرزمین پہ دعوت دے دی چنانچہ میں اپنے ہمسفر کے ساتھ اس صدیوں پرانی حجاز مقدس کی جانب روانہ ہوئی۔حج پہ جانے سے کچھ ماہ پہلے ہی طبیئت میں کبھی کبھی ایک سرشاری کی سی کیفیت دوڑ جاتی،اور جسم و جاں ایک انوکھے سرور و لذت میں ڈوب جاتا۔خدا خدا کر کے وہ دن بھی آ ہی گیا جب ہم لوگوں نے جدہ ے لیے روانہ ہونا تھا۔صبر آزما مراحل کا آغاز حج سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ہم لوگ جنوری کی ٹھٹھرتی ہوئی برفانی صبح کو سحر کا سپیدہ نمودار ہونے سے پہلے ہی گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ان دنوں سورج سستی کے مارے صبح نو بجے نکلتا ہے ۔ اس سے پہلے ہی سب لوگ اپنے اپنے کاموں پہ نکل چکے ہوتے ہیں۔یہاں ناروے میں برفانی ٹھنڈ تھی جبکہ اس وقت سعودی عرب میں لان وائل پہننے کا موسم تھا۔ یہ اس ملک کا موسم سرما ہی تھا۔میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں صبح کی نیلگوں کہر میں لپٹے اپنے آشیانے کو خدا حافظ کہا۔پھر اپنے شہر آشم پہ الوداعی نظر ڈالی اور گاڑی اوسلو کے گارڈیمون ائیرپورٹ کی جانب فراٹے بھرنے لگی۔ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ میرے بھائی کا فون آیا اوسلو سے کہ فلائٹ تین گھنٹے لیٹ ہے۔ہم لوگآدھے سے زیادہ سفرطہ کر چکے تھے اس لیے واپس جانے کے بجائے بھائی کے گھر چلے گئے۔وہاں کچھ دیر بیٹھے پھر ٹھنڈے یخ موسم میں گرما گرم چائے سے لطف اندوز ہو کر دوبارہ ایر پورٹ کی جانب روانہ ہوگئے۔ایئر پورٹ پہ ایک پاکستانی فیملی پہلے سے موجود تھی۔ حلیے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ لوگ بھی حج پہ جا رہے ہیں۔ انہوں نے احرام باندھ رکھے تھے اور پاؤں میں ہوائی چپل تھی۔ باہر غضب کی ٹھنڈ تھی۔ درجہ حرارت نقطہء انجماد سے اٹھارہ درجہ نیچے تھا۔سب لوگوں نے گرم لباس اور لمبے گرم جوتے پہن رکھے تھے۔ لیکن یہ لوگ موسم کی سختی کو خاطر میں لائے بغیر اونی جرابوں کے ساتھ چپل پہنے ہوئے تھے۔ ویسے گارڈیمون ایئر پورٹ کی عمارت ہے تو مکمل گرم مگر پھر بھی جب ،جب خودکار دروازہ کھلتا ہے تب ،تب ٹھنڈی یخ ہوا کے جھونکے ٹھٹھرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔میرے استفار پہ انہوں نے بتایا کہ وہ بھی اسی فلائٹ سے حج پہ جارہے ہیں۔میں اس سے زیادہ معلومات میں حاصل نہ کر سکی کہ وہ کسی کو خاطر میں لانے کے موڈ میں نہ تھے۔پاکستانی قوم کے اخلاق اور نظم وضبط کے ایسے ایسے نظارے اس حج پہ دیکھے کہ میں حیرت سے انگشت بد نداں رہ گئی۔اس کے علاوہ دوسری اقوام کے مسلمان ان سے کئی درجے بہتر تھے۔میں ابھی تک برفانی کوٹ اور بوٹ میں ہی ملبوس تھی۔ میں یونیورسٹی کے امتحان کی وجہ سے حج کورس اٹینڈ نہ کر سکی تھی ۔ اس کا مجھے بے حد افسوس تھا۔ لیکن وہ لوگ معلومات بزریعہ پوسٹ یا کمپیوٹر بھیج سکتے تھے۔ نارویجن تو ایسے موقعوں پہ یوں ہی کرتے ہیں۔ہم لوگ ان کی جدید چیزیں تو استعمال کر لیتے ہیں لیکن ان کی اچھی عادتیں نہیں اپناتے۔