نہال صغیر،ممبئی۔موبائل:9987309013
آنے والے بہار الیکشن میں گرچہ عظیم اتحاد کی جیت کے توقعات زیادہ ہیں اور بی جے پی کی ڈیڑھ سالہ مرکزی حکومت کی حیثیت سے کارکردگی انتہائی مایوس کن ہونے کی وجہ سے اس کی جیت تقریباً طے ہے۔لیکن سیمانچل سے مجلس کے انتخابی میدان میں کودنے سے لوگوں کو سیکولر ووٹوں کے انتشار کا خوف کھائے جارہاہے اور وہ پوری قوت سے اسدالدین کی برائی اور ان کے ایک ایک قدم پر مائیکرو اسکوپ لے کر جائزہ لے رہے ہیں اور تنقید کا کوئی پہلو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ہیں ۔سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر سیمانچل جہاں سے پچھلی ودھان سبھا میں بی جے پی کے اکثر امید وار کامیاب ہوئے تھے اس بار اسد الدین کی وجہ سے کیا قیامت ٹوٹ پڑے گی جو یہ قوم کے غم میں حکام کے ساتھ ڈنر کھانے والے لوگ بے چین ہیں ۔طارق انور کی مخالفت اور عظیم اتحاد کو توڑنے کی کوشش اور سیکولر ووٹوں کا انتشار انہیں کیوں نظر نہیں آتا ؟انہیں صرف اسد الدین ہی ایک واحد مسلم امہ کا خائن نظر آتا ہے !جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم امہ کے خائن ہندوستان میں کانگریس اور اس کی بغل بچہ سیاسی پارٹیوں کے لوگ ہی رہے ہیں ۔ان میں کچھ لوگ حقیقت میں مسلم امہ کے لئے مخلص ہیں جنہیں سادہ لوح کہہ سکتے ہیں جو کانگریس اورایسی نام نہاد سیکولر جماعتوں کو جن کا کردار ساٹھ سال میں واضح ہو کر سامنے آگیا ہے لیکن آج بھی یہ اسی پر ایمان رکھتے ہیں ۔دوسرا طبقہ اس میں منافقین کا ہے جو پوری طرح اس سے واقف ہے لیکن اس کے ذمہ پارٹی نے یہ کام ہی دیا ہے کہ وہ ان کی برائیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ابھرتی ہوئی مسلم قیادت کو نشانہ بنائیں اور ہر حال میں مسلمانوں کو یہ باور کرائیں کہ تمہارا ہندوستان میں کوئی نجات دہندہ ہے تو بس یہی سیکولر پارٹیاں ہیں ۔بہر حال مجھے اس پر زیادہ بحث نہیں کرنی ہے ۔فی الحال مجھے حالیہ الیکشن کا جائزہ لینا ہے کہ اس میں غیر بی جے پی حکومت کی جیت کے امکانات کس قدر ہیں اور اگر بی جے پی کو ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے تو اس کی کیا وجہ ہوگی ۔
یہ بات اب ملک کا بچہ بچہ جان گیا ہے کہ موجودہ ،مرکزی حکومت جس کی قیادت بی جے پی کے ہاتھوں میں ہے اور جس کے پردھان سیوک نریندر مودی ہیں ۔اچھے دنوں سمیت اونچے اونچے دعووں کے ساتھ حکومت میں آئی تھی ۔لیکن ڈیڑھ سال کا ریکارڈ یہ بتا رہا ہے کہ آگے بڑھنے کی بجائے یہ حکومت ملک کو صدیوں پیچھے لے جانا چاہتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس سیاسی عزم کے ساتھ یہ حکومت میں آئے تھے وہ گرچہ عوام کے ذہنوں سے محو ہے لیکن اب دھیرے دھیرے لوگ جاننے لگے ہیں کہ وہ کیا عزائم تھے ۔یہاں میں ان عزائم کا خلاصہ نہیں کروں گا ۔مختصر یہ ہے کہ مودیء حکومت اپنی دور حکمرانی میں کچھ نہیں کرسکتی وہ صرف سرمایہ داروں کے مفاد کا تحفظ کرے گی باقی سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا جیسے چلتا رہا ہے ۔ہاں اگر نصیب ہی اچھا ہوا تو تیل کا بھاؤ بین الاقوامی بازار ،میں گرتا رہے گا اور اس کے سہارے یہ اپنی ۔معیشت کو بچائے رہیں گے ۔اس لئے کوئی بڑا سانحہ ۔نہیں ہوگا ۔لیکن اگر بد نصیبی نے دامن تھام لیا اور تیل کا دام اچانک آسمان چھونے لگا تو معیشت کو بڑا نقصان ہوگا اور اب تک خوش نصیبی کی روٹی توڑنے والی حکومت بد نصیبی کے ،بھنور میں غرق ہو جائے گی ۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ ان کی بد نصیبی ملک کی بد نصیبی بن جائے گی اور ملک بہت بری طرح ٹوٹ جائے گا ۔
بہار الیکشن میں عوام یوں تو سب کچھ سے واقف ہیں لیکن پھر بھی چونکہ میڈیا کو انہوں نے خرید رکھا ہے یا مختصر یہ کہ میڈیا ان کی دلالی کررہا ہے وہ عوام کو گمراہ کر سکتا ہے اور عوام اس کے جھانسے میں آسکتے ہیں ۔ سوشل میڈیا کے سہارے زیادہ بڑی جنگ جیتنے کی امید نہیں ہے ۔یہ ہندوستان ہے مصر نہیں کہ سوشل میڈیا سے انقلاب آجائے گا یہاں کے لوگ بقول کاٹجو کے نوے فیصد مورکھ ہیں ۔اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ ابھی مودی کی امریکی سفر سے پہلے وزیر تجارت اور وزیرخارجہ دونوں امریکہ میں صنعتی میٹنگ میں شریک ہونے کے لئے گئی تھیں ۔وہاں انہیں کھری کھری سننے کو ملی لیکن یہاں میڈیا یہ باور کرانے میں لگا ہے کہ وہاں انہوں نے بڑی پیش قدمی کی جبکہ امریکی صنعت کاروں اور سرکاری عملہ کا کہنا یہ تھا کہ بھارت میں تجارت آج بھی ایک مشکل کام ہے ۔انہوں نے وہی ساری خامیاں گنائی جس سے ہم لوگ ہر روز نبرد آزما ہو تے ہیں ۔اس کے بعد حکومت کی جانب سے یہ بات بھی سامنے اآئی کہ میک ان انڈیا مہم کا تجزیہ کیا جائے گا ۔اس کی خامیوں کو دور کیا جائے گا ۔لیکن یہ کام اس وقت ہو سکتا ہے جب حکومت اس کے لئے مستعد ہو لیکن اس کا ذہن تو پوری طرح ہندوتوا کے ایجنڈے کو جلد سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ہے ۔ایسی صورت میں ترقی کے نعرے اور روز نئے پروگرام نئی مہم کا اعلان تو کیا جاسکتا ہے پر عمل نہیں ہو سکتا ہے۔
بہار الیکشن میں بی جے پی کے لئے ہار کا سبب دو وجہ بنے گی اول تو اس کی ڈیڑھ سال کی ناکامی اور بد انتظامی نیز اس کے لیڈروں کی بد زبانی اور دوئم بہار میں اس کے لئے لیڈر شپ کا قحط ۔اتنی ساری کوشش کے بعد بھی بی جے پی ایک وزیر اعلیٰ کا امید وار عوام کے سامنے پیش نہیں کرسکی ۔بی جے پی کا آپسی تنازعہ اور گروہ بندی بھی اس کی ہار میں ایک اہم سبب بن سکتا ہے ۔لیکن بی جے پی ہار کے بعد اس کا ٹھیکرا یقینی طور باغی اور غیر مطمئن پارٹی کارکنان کے سر ڈالے گی ۔ابھی مودی کا سورج پارٹی کی حد تک عروج پر ہے اور وہ امیت شاہ کو ہر حال میں بچائیں گے ۔ان پر کوئی الزام نہیں آنے دیں گے ۔لیکن بی جے پی کی ہار کااہم سبب اصل میں وہی ہوگا جو اوپر بیان کیا جاچکا ۔دوسری طرف عظیم اتحاد کی جیت کی اہم وجہ اس کے ترقیاتی کام ہیں جو بہار میں پچھلے پچیس برسوں میں ہوئے ہیں ۔قانون و انتظامیہ کی صورتحال بھی غیر کانگریسی والے پچیس سال میں بہتر ہوئی ہیں ۔اصل میں کانگریس نے بہار کو کچھ دیا ہی نہیں بلکہ اس کی دولت سے اس نے دوسری ریاستوں کو فیض پہنچایا لیکن بہار کو اسی طرح پسماندہ رہنے دیا تاکہ دوسری ترقی یافتہ ریاستوں کو یہاں سے مزدور ملتا رہے اور ترقی کے مدارج طئے کرتے رہیں ۔آج سے پچیس سال قبل اگر بہار کی صورتحال کا معائنہ کرپائیں اور آج کے بہار کو دیکھیں تو زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔سڑکوں اور بجلی کی پوزیشن بہتر ہی نہیں بہت اچھی ہوئی ہے ۔میرا گاؤں بلاد آدم جو کہ مظفر پور سے تقریباً 35 کلو میٹر دور ہے اور اتنی ہی دوری ویشالی ضلع کے ضلعی ہیڈ کوارٹر حاجی پور سے بھی ہے ۔وہاں آج کی تاریخ میں بجلی کم از کم بیس گھنٹے رہ رہی ہے ۔جبکہ اس گاؤں میں بجلی کا پول چالیس سال قبل آچکا تھا ۔اسی طرح سڑکیں اور چھوٹی ندیوں کو کراس کرنے کے لئے پل بھی دو سال قبل ہی بن کر تیار ہوا ہے ۔کانگریس کے دور حکومت میں بہار ترقی سے دور پسماندگی کا شکار اور کانگریس کے آپسی گرہ بندی اور بغاوت کا بھی شکار رہا ہے ۔ اگر کسی وزیر اعلیٰ نے بہار کی ترقی کی بات بھی کی تو اس کی حکومت ختم کردی جاتی تھی بہار میں بستر کی چادر کی طرح وزیر اعلیٰ کی تبدیلی ہو تی رہی ہے اور یہ سب کچھ کانگریس کے دور میں ہوا ہے ۔کل ملا کر بہار کی غربت کی بھٹی پر ترقی یافتہ ریاستوں کی روٹیاں سینکی گئی ہیں۔لیکن پچیس سال قبل بہار میں بھاگل پور فساد کے بعد کانگریس کا زوال ہوا تب ہی سے بہار کی ترقی کا سورج طلوع ہونا شروع ہوا ۔آج بہار میں بجلی اور سڑکوں کی بہتر صورتحال سے پنجاب کے ایک ایم پی کی بات یاد آتی ہے کہ ’’گاؤں کو زیادہ کچھ نہیں انہیں بجلی اور اچھی سڑکیں دے دو وہ اپنی ترقی خود ہی کرلیں گے‘‘ ۔یہی بات اب بہار پر ثابت آتی ہے ۔
کچھ لوگ اب بھی برہمنی میڈیا کے زیر اثر لالو پرشاد کو چارہ چور اور ان کی پندرہ سالہ حکومت کو بہار کا ڈارک ایج قرار دیتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لالو پرشاد نے وزیر اعلیٰ بنتے ہی فساد سے پاک بہار بنانے کی کوشش کی اور اس کے لئے ان کا براہ راست ٹکراؤ سورن (اونچی ذات )کے ہندوؤں سے ہوا ۔مجھے اب بھی یاد ہے کہ اس وقت کے اقلیتی کمیشن کے چیئر مین سے ان کے دفتر میں ملنے گیا تھا معاملہ میرے گاؤں کے قبرستان کا تھا ۔ میں نے یوں ہی پوچھ لیا کہ یہ بتائیں کہ لالو پرشاد کی حکومت مسلمانوں کے حق میں کیسی ہے اس کے جواب میں انہوں نے صرف اتنا کہا کہ دوسروں سے غنیمت ہے۔اس کا میں نے خود بھی مشاہدہ کیا تھا ۔انہوں نے ہی ایم وائی یعنی مسلم یادو کے اتحاد کا نعرہ دیا اور بھورا بال صاف کرنے کی بات کی یہ بھورا بال بھومی ہار راجپوت کی طرف اشارہ تھا اس پر وبال بھی مچا تھا ۔مطلب یہ کہ انہوں نے برہمنیت کو کھلے عام چیلنج کیا اور ان کے زور کو بہار میں توڑ دیا۔کہنے کے لئے باتیں بہت کچھ ہیں لیکن پھر کبھی ۔لالو یادو کے خلاف عام طور پر وہی محاذ کھولے ہوئے ہیں جو کانگریس اور بی جے پی کے غلام ہیں ۔بی جے پی تو خیر ابھی سیاست میں نابالغ ہے اس کے تو دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے ہیں ۔اگر وہ بالغ ہوتی تو آج جو مودی کے سپاہی ماحول بنائے ہوئے ہیں اور آر ایس ایس اور مودی خاموشی کے ساتھ اس کی حمایت کررہے ہیں ،ایسا نہیں کرتے وہ بہتر ڈھنگ سے حکومت چلاتے لیکن یہ سب کچھ ان کی عدم بلوغت پر دلیل ہے ۔
مختصر یہ کہ نتیش لالو اتحاد کی جیت کے آثار زیادہ ہیں ۔لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ لوگ مودی کی ناکامی اور بی جے پی کے فساد کو عوام کے سامنے رکھ پاتے ہیں کہ نہیں ۔کیونکہ بہار الیکشن ترقی کے مدعے پر ہی لڑا اور جیتا جائے گا ۔لیکن بی جے پی ترقی کے لمبے چوڑے وعدے پر تو حکومت میں آئی ہے لیکن ترقی کے آثار بھی دور دور تک نہیں ہیں ۔اس پر طرہ یہ کہ دادری جیسے واقعات غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خوف میں مبتلا کرنے کے لئے کافی ہیں کہ یہاں امن و قانون کی صورت حال دن بدن بگڑتی جارہی ہے ۔بے چارے مودی جی شاید کسی کی لکھی ہوئی تقریر کو رٹ کر اجلاس میں اپنی فصاحت و بلاغت کا سکہ جمانے کی کوشش کررہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اپنی عدم معلومات پر کئی بار مذاق کا موضوع بنے ہیں۔اسی طرح وہ بہار کی ایک ریلی میں عوام سے پوچھتے ہیں ’’نتیش جی نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ بجلی نہیں دے سکے تو 2015 میں ووٹ مانگنے نہیں آئیں گے ،بجلی آئی ،بجلی آئی ،بجلی آئی ۔نہیں آئی نہ ‘‘اب ان بے چارے کو یہ بھی نہیں پتہ کہ بہار میں کچھ سال قبل اور ابھی کی صورتحال میں کیا فرق ہے ۔این ڈی ٹی وی نے مودی کی اس عدم معلومات کا یوں مذاق بنایا کہ چلتے پھرتے کئی لوگوں سے بجلی کی صورتحال پر ان کی رائے طلب کرلی بجلی کی فراہمی پر عوام نے اطمینان کا اظہار کیا ۔چھوٹی صنعتوں کو بھی فروغ ملا ہے ۔میں کچھ خریداری کے لئے جب مظفرپور گیا تو میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا وہ ساری چیزیں پٹنہ کی مبنی ہوئی تھیں ۔پہلے یہ چیزیں کولکاتا یا دہلی کی ہوا کرتی تھیں ۔یعنی بجلی کی بہتری نے چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیا ہے