پاکستان کی تشکیل کے بعد سرحدی دفاع ایک اہم مسئلہ تھا ۔ کیونکہ پاکستان کی تشکیل میں مذہب اور جذبات کار فرما تھے ۔ اور ہر شخص پاکستان سے ایمان کی حد تک لگاؤ رکھتا تھا تو اس لیے کم وسائل سے بھی بھرپور دفاع کیا جاسکتا تھا ۔ کیونکہ جنگ ہتھیاروں کے ساتھ جذبوں سے لڑی جاتی ہے ۔ ہندوستان میں اکثریت ماہا ہندوستان کا خواب دیکھ رہی تھی اس لیے انہوں نے پاکستان کو دل سے قبول ہی نہیں کیا ۔ ہندوستان میں بسنے والا انتہاپسند ہندو طبقہ ہمیشہ پاکستان سے نفرت کا اظہار کرتا رہا ہے اور تاریخ سے لیکر ابتک موقع ملتے ہی کوئی نا کوئی حرکت کرتا رہاہے ۔ پاکستان کشمیر میں جارحانہ پالیسی کی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ ہر فورم میں نبردآزما رہا ہے ۔
سن 65میں ہندو انتہا پسند سوچ ستمبر کی راتوں میں اپنے سپنوں میں پاکستان کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہی تھی اس اس کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے 6ستمبر کو چڑھ دوڑی ۔ مگر انہیں نہیں معلوم تھا یا اندازہ نہیں تھا کہ پاکستانی قوم اور فوج ہتھیاروں سے نہیں جذبوں اور ایمان سے لڑے گی ۔ موت کو محبوبہ جان کر وہ دشمن کے ٹینکوں کے آگے بے خوف لیٹ جائیں گے ۔ ہر شخص اپنی شناخت اور پہچان مٹا کر ایک پاکستان بن کر سیسہ پلائی دیوار بن جائے گا ۔ نغموں کی دھنوں سے لیکر واعظ کی وعظ میں شہادت کی آرزوئیں سما جائیں گی ۔ ماں اپنے بیٹوں کو بہنیں اپنے بھائیوں کو سہاگنیں اپنے سہاگ کو مقتل میں خود بھیجیں گی ۔ ہر طرف بینوں کے نہیں نعرہ تکبیر کی صدائیں ہوگی ۔ ہماری بری فوج سرحدوں کی ، ہماری بحری سمندروں کی ، ہماری فضائیہ ہمارے فضاؤں کی ، ہمارے علماء ، زعماء ، دانشور ، سیاستدان ، مشائخ ، نیز ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا ہر شخص ہر سیسہ پلائی دیوار کی طرح حفاظت کرے گا ۔ پھر تاریخ نے دیکھا ایک قوم ایک آواز ایک ہتھیار بن کر اپنے سے دس گناہ بڑے طاقتور پر کچھ اس طرح ٹوٹ پڑی کہ دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے ۔ بہادری اور شجاعت کے وہ داستانیں رقم ہوئیں کہ دشمن بھی تعریف کیے بنا نہیں رہ سکا ۔
یہ سن 65کی داستان تھی جب ہم ایک قوم تھے ہمارے سیاسی ، مذہبی اور معاشرتی اختلافات یا مفادات بعد میں آتے تھے پاکستان پہلے آتا تھا ۔ ہمارے سیاسی ، مذہبی ، لسانی اور قبیلی نام بہت تھے مگر پہچان ایک تھی ۔ ہمارے دکھ بہت تھے مگر سکھ ایک تھا ۔ ہماری آرزوئیں بہت تھیں مگر خواب ایک تھا ۔ ہمارے رستے بہت تھے مگر منزل ایک تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے اپنے سے بڑے طاقتور اور جنونی کو اپنے اتحاد اور اتفاق سے بد ترین شکست سے دوچار کیا ۔ جس کے زخم وہ آج بھی چاٹ رہا ہے ۔
سن 65کے بعد ناجانے ہماری قوم کو کس کی نظر کھا گئی ۔ ہم قوم سے ہجوم میں بدلنے لگے ۔ دشمن نے وار کا انداز بدلا ۔ سامنے آنے کے بجائے پیچھے سے وار کرنے کی ٹھانی ۔ ہمیں ہماری کمزوریوں سے شکست دینے کا منصوبہ بنایا ۔ ہمیں ہماری غلطیوں سے سر نگوں کرنے کی ٹھان کر اس نے سن 71 میں ہمیں دولخت کردیا جس میں اس کا کردار مکاری کا تھا اور ہمارا قتدار کے نشے میں خود کو دولخت کروانے کا ۔ مشرقی پاکستان کے حقوق کو جب ہم احسن انداز سے پورا نہیں کیاعیاشی ہمارا اوڑھنا بن گئی تھی اور اوپر سے ستم ظریفی کے مشرقی پاکستان کی رائے کو بھی مقدم نہ جانا ۔پھر ایک احساسی محرومی کا بیج جو ہم نے بنگالیوں کے دلوں میں بو دیا تھا وہ بغاوت کی درخت کی شکل اختیار کر گیا اور وہی دشمن جو سن65میں بھیگی بلی کی طرح بھاگا تھا وہ سن 71میں چوروں کی طرح آیا اور ہمیں دو ٹکڑے کرنے میں اپنا بدنما کردار ادا کر گیا اور ہم کچھ بھی نہ کرسکے ۔
سن 71میں ہم مشرقی اور مغربی کی تفریق میں تھے ایک گہرا زخم کھانے کے بعد ہونا تو چاہیے تھا کہ ہم بدل جاتے اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہجوم کی صورت اختیار کرنے کے بجائے قوم کی طرف پلٹ جاتے مگر ایسا نہیں ہوا ہم وقت کے ساتھ ساتھ تفریق در تفریق اور ہجوم در ہجوم میں تقسیم ہوتے جارہے ہیں ۔ اب ہمارے جو نام تھے اب ہماری وہ پہچان ہیں ۔ ہم فرقوں ،مسلکوں ، لسانوں ، ذاتوں ،برادریوں اور خاندانوں میں تقسیم ہوتے جارہے ہیں ۔ اور آنے والا دن ہمیں تفریق کرتا جارہا ہے ۔ کمزور طبقوں میں احساسی محرومی بڑھتا جارہاہے ۔ دھشت گردی اور کرپشن کی ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے قوم بے حسوں کے ٹولے کی مانند ہر کرپٹ اور نااہل کو اقتدار تک پہنچاتی اور اپنی تباہی کا نوحہ بھی نہیں پڑھتی ، رہنما اور رہزن میں فرق ختم ہوتا جارہا ہے ۔ واعظ کے وعظ میں اثر ختم ہوگیا ہے خانقاہیں ویران ہوتی جارہی ہیں اور ہم ایک ہجوم کی شکل میں جس طرف رخ ہے اسی طرف انجام سے بے خوف چلے جارہے ہیں ۔ جن درختوں کو گھن کھارہی ہو اسے باہر سے کاٹا نہیں جاتا وہ اندر کی گھن سے ہی ختم ہوجاتا ہے ۔ 6ستمبر جہاں دفاع کو منانے کا دن ہے وہاں سوچنے کا بھی دن ہے کہ 6ستمبر 1965کو ہم قوم تھے 6ستمبر 2015کو ہم ہجوم ہیں ۔ ہمیں پھر سے 6ستمبر 1965کی جانب لوٹنا ہوگا اور ہجوم سے قوم کی طرف پلٹنا ہوگا
فرحان منہاج
03003156203