شہزاد بسراء
ٹرن ٹرن ٹرن
موبائل کی گھنٹی پھر بجی ۔ چھوٹے قد اور بڑے پیٹ والا سانولا بنگالی ہڑ بڑا کرگہری نیند سے چونکا ۔ آس پاس کے سوئے ہوئے بنگالی بھی اس اچانک افتاد پڑنے پر خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورنے لگے۔ موٹی توند والے بنگالی کے جیب سے موبائل نکالنے تک 2-3دفعہ بلندآواز میں موبائل کی گھنٹی بج چکی تھی۔ ہال میں بیشتر افراد جو میٹھی نیند کے مزے لے رہے تھے جاگ چکے تھے ۔موٹے نے فون نکال کر کان سے لگایا اور بڑے دھڑلے سے آس پاس کی پروا کئے بغیر بات کرنے لگا۔ اس دوران سٹیج پر ایک گورا مقرر دھیمی آواز سے لوری میرا مطلب ہے لیکچر دے رہا تھا اس کو بھی خیال نہ آیا کہ تھوڑی دیر کے لیے لیکچر بند کر دے تاکہ موٹا بنگالی آرام سے فون پر بات کر سکے۔ بنگالی نے فون بند کیا ، پھر سے پینٹ کی جیب میں ڈالا اور ایک منٹ میں ہی پھر سے بیٹھے بیٹھے سو گیا ۔ہال میں موجود بیشتر بنگالی بھی پھر سے لوری نما لیکچر کے نیند آور اثر سے پھرسے نیند کی وادی میں جا چکے تھے۔ لگتا تھا کہ ان بنگالیوں کو کافی عرصہ سے ACکے ٹھنڈے ٹھار ماحول میں نیند کا موقع نہیں مل سکا یا پھر یہ بنگالی بابو رات بھر جاگتے رہے تھے۔
صبح سے یہ ساتواں لیکچر تھا۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ زیادہ نیند آورلیکچر کس کا تھا کیونکہ صبح سے پہلے ہی لیکچر سے ان زبردستی بٹھائے بنگالیوں نے نیند کے مزے لوٹے تھے۔ ہر مقر ر نے اس بات کا خصوصی خیال رکھا تھا کہ ماحول پر سکون رہے اور حاضرین کو لوری کا مزا مل سکے مگر نامراد موبائل کلچر نے اس پر سکون ماحول کو وقفے وقفے سے برباد کر دیا۔ ذرا نیند گہری ہو نے لگتی تو کسی کا موبائل بج اُٹھتا ۔ غالباً منتظمین نے خصوصی ہدایات جاری کر رکھیں تھیں کہ موبائل کو دوران کانفرنس بند نہیں کرنا اور نہ ہی اسکی گھنٹی کو بند کرنا ہے گوروں کی طرح نہیں کہ کانفرنس میں سرے سے موبائل لے کر ہی نہیں جانا یا پھر آواز بند کرکے بیٹھے رہنا ۔ اسی لئے گوروں کو بار بار کالی کافی پینی پڑتی ہے تاکہ کانفرنس میں دوران لیکچر سو نہ پائیں۔ ہمارے پاکستان میں بھی دورانِ کانفرنس اکثر موبائل کی گھنٹیاں بجتی ہیں تو لوگ شرمندہ ہو کے جلدی سے موبائل بند کرتے ہیں۔ مگر بنگلہ دیش میں لوگ اِس تکلف میں نہیں پڑتے اور بڑے دھڑلے سے دورانِ لیکچر موبائل آن رکھتے ہیں اور فون سنتے ہیں۔ کچھ افراد ذرا حساس طبیعت کے بھی دیکھے جو موبائل کان سے لگائے بات کرتے کرتے باہر چلے جاتے۔ اگرچہ اتنا آہستہ چلتے اور بات اونچی کرتے کہ باہر پہنچنے تک فون بند ہو جاتا۔بیٹھ کے سنتے تو کم کو پتا چلتا۔
’’ڈاکٹر صاحب ۔ یہ بنگالی مجھے پروفیسر نہیں لگتا‘‘۔ زاہد نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ زاہد میرا پُراناسٹوڈنٹ تھا
’’اور کیا یہاں قلفیاں بیچنے آیا ہے؟‘‘۔ ہم نے مسکرا کر کہا
’’نہیں سر جی مجھے تو یہ کوئی پراپرٹی ڈیلر لگتا ہے۔ ہر تھوڑی دیر بعد اُسے کال آجاتی ہے تو نیند سے بیدار ہوتا ہے ورنہ سویا رہتا ہے‘‘۔زاہد نے اپنا خیال ظاہر کیا
’’اور تیری بھی نیند بار بار خراب ہوتی ہے ناں؟‘‘۔ ہم نے زاہد کو چھیڑا
’’سر جی میں تو بڑی توجہ سے سُن رہا‘‘
’’مجھے تو ڈاکٹر قیصر بھی بنگالی لگتے ہیں‘‘۔ ہم نے چائے کے وقفے میں شک کا اظہار کیا
’’رہنے دیں ڈاکٹر صاحب۔ اتنا گورا چٹا اور لمبا بنگالی کیسے ہو سکتا ہے‘‘۔ ڈاکٹر سہیل حمید، ڈائریکٹر NIBGE نے مسکراتے ہوئے کہا
’’میں نے نیند کی وجہ سے کہا‘‘۔ ہم نے سادگی سے عرض کی
’’ویسے ڈاکٹر یوسف ظفر کے لیکچر نے لوگوں کو بہت پریشان کیا‘‘۔ ہم نے ہولے سے ایک اور دھماکہ خیز تبصرہ کر دیا
’’ارے نہیں‘‘۔ذیشان نے حیرت سے کہا
’’اُن کا لیکچر تو ہمیشہ کی طرح زبردست تھا‘‘۔زاہد تو سراپا احتجاج تھا
’’اِسی لیے تو کہا‘‘۔ ہم نے عرض کی
’’کہنا کیا چاہ رہے ہیں‘‘۔عرفان بھی حیران تھا
’’بھئی سیدھی سی بات ہے۔ ڈاکٹر یوسف صاحب نے اسقدر زور دار لیکچر دیا کہ بنگالی بابو سو ہی نہیں پائے۔ ذرا اُن کی آنکھ لگنے لگتی، گرجدار آواز میں ایک نئی بات شروع کر دیتے‘‘۔ ہم نے اصل بات بیان کر دی۔
ہم اکثر سوچا کرتے ہیں کہ دورانِ لیکچر یا کانفرنس سامعین یا طلباء کو کیسے جگائے رکھیں ۔اس سلسلے میں کئی تجاویز زیر غور رہیں ۔ مثلاً
وقفے وقفے سے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے گرانا ، اِس ضمن میں نعت یا قوالی کی محافل میں عرق گلاب کا چھڑ کاؤ والا طریقہ آزمایا جا سکتاہے۔
چار کی بجائے تین پائے والی کرسی کہ جیسے ہی نیند کا جھونکا آئے کرسی لڑھک جائے
لیکچر رکی جیب میں چند ایک کریکر بھی ہونے چاہیے جیسے ہی نیند کا غلبہ غالب ہونے لگے ، ایک کریکر چھوڑ دیا ۔
ہال میں ایک آدھ چوہا بھی چھوڑا جا سکتا ہے کہ خواتین کی وقفہ وقفہ سے چیخیں ماحول کو جگائے رکھ سکتی ہیں
اگر ACکبھی بند اور کبھی بہت تیز کر دیا جائے تو ماحول کے گرم سرد ہونے سے بھی حاضرین کو جگائے رکھنے میں مدد مل سکتی ہے
چند طریقے تو ہم کامیابی سے آزماچکے ہیں جیسے طلباء سے وقفے وقفے سے پوچھنا کہ بتاؤ ابھی میں نے کیاپڑھا یا ہے یقین مانئے کہ ساری رات کے جاگے طلبا ء سے بھی سوال کرنا شروع کردو تو اُن کی نیند مکمل اڑ جاتی ہے وہ اگلے طالب علم کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ٹیچر کی اُن پر نظر نہ پڑے۔اگر ٹیچر کسی طالب علم کی طرف اشارہ کرے تو وہ ایسا اظہار کرے گا جیسے ٹیچر اُس سے پچھلے کو اشارہ کر رہا ہے۔ مگر کانفرنس میں آپ سوال بھی سامعین سے نہیں کر سکتے۔ پھر اچھا کھانا، ٹھنڈا آرام دہ ماحول، بیوی سے دوری کا پُر سکون احساس۔ جب ایسے حالات میں صبح 9 بجے سے شام تک مسلسل تقاریر ہی سننے کو ملیں اور تقاریر بھی سائنسدانوں کی تو پھر نیند ہی تو آنی ہوتی ہے۔کم ہی سائنسدان اچھے مقرر ہوتے ہیں۔ مگر اس ضمن میں جو بنگالیوں نے موبائل کا استعمال کا مؤثر طریقہ آزمایا ہے وہ سب سے بڑھ کر ہے ۔پھر بنگالی فون کو بڑے آرام سے جیب سے نکالتے ہیں اور پوری آواز سے سنتے ہیں یہ نہیں کہ فون جلدی سے بند کردو یا باہر لے جاؤ وہیں بیٹھ کر آرام سے سنو۔ وہیں سنو تاکہ باقی لوگ جاگ جائیں اور تھوڑا سا لیکچر سُن سکیں۔
ایک سروے کے مطابق کوئی بھی انسان کسی لیکچر کو 9منٹ سے زیادہ دھیان سے نہیں سن سکتا۔ 9منٹ کے بعد اس کا دھیان بٹ جاتا ہے وہ ادھر ادھر دیکھنے یا سوچنے لگتا ہے۔ پھر وہ دوبارہ لیکچر کی طرف رجوع کرتاہے۔ جب لیکچر پون گھنٹے کا ہو اور مقرر ایک ہی انداز اوررفتار سے لیکچر دئے جائے تو سامعین نے تو سونا ہی ہے ۔بہت کم مقرر ہوتے ہیں جو وقفے وقفے سے کبھی لطیفہ، کوئی قصہ ، آواز بدل کر یا اپنی جسمانی حرکات کے ذریعہ سامعین کی توجہ حاصل کئے رکھے۔ اوپر سے ستم یہ کہ ہر واعظ، مقرر، استاد جوڈائس پر آجائے وہ اپنے تئیں یہ سمجھتا ہے کہ اس سے زیادہ دلچسپ گفتگو اور لیکچر کوئی اور نہیں دے سکتا۔عام طور خیال کیا جاتا ہے کہ ماں سے بڑھ کر کوئی نہیں مگرٹیچر ماں سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ ماں تو لوری دے کر ایک بچے کو سلا دیتی ہے جبکہ ٹیچر لوری سنا کر پوری کلاس کو سلا دیتاہے۔دوران کانفرنس سب سے دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب لوری نما لیکچر کے بعد مقرر مسکراتے ہوئے یہ فرماتا ہے کہ
Hope You Enjoyed My Lecture
تالیاں بج اُٹھتی ہیں تو سوئے ہوئے بنگالیوں کو بھی ہڑبڑا کر نیند سے بیدا رہوکر تالیاں پیٹنی پڑتی ہیں پھر صاحب صدر مسکرا کر ارشاد فرماتے ہیں
It was an Exellent Lecture
یعنی باکمال تقریر تھی غالباً اس سے مراد یہ کہ اتنی نیند اور سکو ن آور لوری تھی کہ لوگوں کو مست کردیا۔ جب خود نیند سے بیدار ہو کے صاحب صدر Excellent Speachقرار دے کر خود زور سے تالیاں پیٹتے ہیں تو پون گھنٹہ کی بیزار، بے محل ، بے اثر اور بور تقریر سن کر بھی مجبوراً سب کو تالیاں بجانا پڑتی ہیں تو صدر صاحب کی بتیسی نکل آتی ہے کہ کیسے بے زار لوگوں سے فضول تقاریر ، پالیسوں اور کارکردگی پر زبردستی تالی بجوا کر فرماتا ہوں کہ میری نظر سے دیکھو سب اچھا ہے