عابدہ رحمانی
شکاگو
مائی ڈئیر تاج الدین،
تمھارا اِملا کی غلطیوں سے بھرپور مراسلہ مِلا، جسے تم بدقسمتی سے “محٌبت نامہ” کہتے ہو ۔
کوئی مسٌرت نہیں ہوئی ۔
یہ خط بھی تمھارا پچھلے خطوط کی طرح بےترتیب اور بےڈھنگا تھا۔
اگر خود صحیح نہیں لکھ سکتے تو کسی سے لِکھوا لیا کرو۔
خط سے آدھی ملاقات ہوتی ہے اور تم سے یہ آدھی ملاقات بھی اِس قدر دردناک ہوتی ہے کہ بس!
اور ہاں…. یہ جو تم نے میری شان میں قصیدہ لِکھا ہے ،
یہ دراصل قصیدہ نہیں بلکہ ایک فلمی گانا ہے اور تمھارے
شاید عِلم میں نہیں کہ فِلم میں یہ گانا ہیرو اپنی ماں کے لئے گاتا ہے ۔
اور سُنو! پان کم کھایا کرو۔
خط میں جگہ جگہ پان کے دھبے صاف نظر آتے ھیں۔
اگر پان نہیں چھوڑ سکتے تو کم از کم خط لکھتے وقت تو ھاتھ دھوکے بیٹھا کرو۔
اور یہ جو تم نے ملاقات کی خواھِش کا اظِہار انتہائی اِحمقانہ انداز میں کیا ھے۔
یو لگتا ہے کہ جیسے کوئی یتیم بچہ اپنی ظالِم سوتیلی ماں سے ٹوفی کی فرمائش کر رھا ھو، اس یقین کہ ساتھ کہ وہ اِسے نہیں دےگی۔
ایک بات تم سے اور کہنی تھی کہ کم از کم اپنا نام تو صحیح لکھا کرو۔
یہ “تاجو” کیا ھوتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی قصائی یا دودھ والے کا نام ھو۔
مخفٌف لِکھنا ھی ہے تو صِرف “تاج” لِکھدو۔
آئندہ خط احتیاط سے لِکھنا۔
اُس میں کوئی غلطی نہیں ھونی چاہیے۔
آخر میں تم نے جو شعر لِکھا ہے.. وہ تو اب رکشہ والوں نے لکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔!
مجھے ڈر ہے کہ تم سے عشق کا یہ سلسلہ میری اردو خراب نہ کر دے۔
بس یہی کہنا تھا۔
فقط
تمھاری …….. !!
|