جگر مراد آبادی
عبدالرشید
شہنشاہ تغزل جگر مراد آبادی کا نام شیخ محمد علی سکندر اور جگر تخلص تھا۔ والد کا نام نظر علی تھا جو خود اچھے شاعر تھے۔اس زمانے کے جانے مانے شعرا میں ان کا شمار ہوتا تھا اور ان کا ایک دیوان بھی شائع ہوا تھا۔ پروفیسر وہاب اشرفی اور پروفیسر سیدہ جعفر نے اپنی تصنیف میں جگر کو پدم بھوشن یافتہ بھی قرار دیا۔
(بحوالہ’ تاریخ ادب اردو‘ (جلد سوم): وہاب اشرفی، ص: ۱۴۶۳۔۱۴۶۱، تاریخ ادب اردو (جلد چہارم) سیدہ جعفر، ص: ۲۵۳ )
کچھ نظریوں اور صحف و کتب کے مطابق انسان پر ایسا وقت آتا ہے کہ اس کے اندر کوئی ایسی قابل ذکر شے نہیں ہوتی جس کے سبب اسے یاد کیا جائے۔ تاہم پیدائش کے وقت ماں باپ اور اعزہ و اقربا چند لمحوں ، گھنٹوں یا دنوں کا جشن منا کر بھول جاتے ہیں۔ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں کہ مرورِ زمانہ کے ساتھ ان کے اعمال وافعال اور کردار کے سبب ان کی مقبولیت بڑھتی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ ملک و قوم کا سرمایہ بن جاتے ہیں اور ان کی موت و حیات کی تاریخوں پر انھیں یاد کیا جاتا ہے۔ جگر مراد آبادی ایسے مخصوص لوگوں میں سے ایک تھے۔ وہ منجملہ خاصان میخانہ تھے۔ ان کا خاندان مذہبی تھا۔ مولویوں کا گھرانہ تھا۔
جگر کے مورث اعلیٰ مولوی محمد سمیع فرخ سیر کے استاد تھے۔ فرخ سیر کی وفات کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے مراد آباد آ گیا۔ جگر کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش ۱۸۹۰ء اور مقام پیدائش بنارس ہے، جو مختلف فیہ ہے۔ کیوں کہ کچھ لوگوں کے نزدیک ان کی جائے ولادت مراد آباد ہی ہے۔
شہنشاہ تغزل جگر مراد آبادی کا پورا نام شیخ محمد علی جگر مراد آبادی تھا۔ جگر لکھنؤ کے اسٹینلی اسکول میں پڑھتے تھے ۔ نویں جماعت میں دو مرتبہ فیل ہوئے۔ فیل ہونے کے بعد باضابطہ حصول تعلیم سے دستبردار ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ جمالیات حیات و کائنات کی بصیرت و حسیت رکھنے والا انسان خشک سائنسی صداقت اور ٹکنالوجی و ہندسوں کے فارمولوں و اصولوں سے دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس کی نظر صرف خوبصورتی کی جستجو میں رہتی ہے۔ جگر کے ایک جاننے والے عاقل نام کے شخص کا چشموں کا کارخانہ تھا۔ جگر اس کار خانے کے ایجنٹ ہو گئے اور چشمہ فروشی کا پیشہ اختیار کیا۔ جگر کا اپنے کام کے سلسلے میں بنارس سے لے کر اعظم گڑھ تک دورہ ہوتا ۔ وہ اعظم گڑھ مسلم مسافر خانے میں ٹھہرتے پھر ان کی دوستی مرزا احسان بیگ سے ہو گئی اور جگر مرزا صاحب کے گھر ٹھہرنے لگے۔ مرزا صاحب خود اچھے شاعر تھے۔ دونوں میں خوب جمتی تھی۔ جگر اعظم گڑھ کی شعری محفلوں میں بہت مقبول تھے۔ عربی اور فارسی میں اچھی صلاحیت کے مالک تھے۔ اردو کے علاوہ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے۔ تیرہ چودہ برس کی عمر میں شاعری کرنے لگے تھے او راپنے والد سے اصلاح لیتے تھے۔ داغ دہلوی اور منشی امیر اللہ تسلیم نے جگر کی شاعری کو مزید جلا بخشی ۔ غیر منظم زندگی اور انتشار ذہنی کے باعث نشیب و فراز کے مختلف مراحل سے دو چار ہوئے۔ آگرہ میں وحیدن بیگم سے شادی اور پھر مفارقت کا مرحلہ بھی آیا۔ دوسرا عقد نسیم سے ہوا۔ جگر کا یہ دور بلا نوشی کا دور تھا۔نسیم سے شادی ترک مے نوشی کی شرط پر ہوئی تھی۔ لہٰذا جگر نے بادہ کشی سے توبہ کر لی۔ ان کی زندگی میں ایک انقلاب آیا۔ صوم و صلاۃ کے پابند ہو گئے۔ اصغر گونڈوی کے کہنے پر شاہ عبدالغنی منگلوری سے بیعت کر لی۔ اصغر گونڈوی ، جگر کے محسنوں میں سے تھے لیکن دونوں کے شعری مزاج میں فرق تھا۔ اصغر گونڈوی کا میلان تصوف کی طرف تھا۔ ۱۹۵۳ء میں حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ جگر کی شررنگار اور خمریہ شاعری کاتجزیہ کیا جائے تو ایک دفتر درکار ہے۔ مشاعرے میں ان کی شرکت کامیابی کی ضامن ہوتی۔ ترنم میں شعر پڑھنا اور سامعین کی داد و تحسین اور ’مکرر ارشاد‘ کے ہنگاموں سے محفل مشاعرہ گونج اٹھتی۔ مصرعوں میں لفظوں کا استعمال شگفتہ و شستہ طرز ادا اور روانی سے خیالات و تجربات کی ترسیل میں لمحہ بھر کی رکاوٹ نہیں آتی۔ اسٹیج پر بیٹھے دوسرے شعرا جگر کی مقبولیت سے پریشانی محسوس کرتے۔ پدم بھوشن کا خطاب، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند، مجموعہ آتش گل پر ساہتیہ اکادمی کا انعام اور دولت ہند کی جانب سے تاحیات پنشن کا وقار بھی ملا۔
’’داغ جگر‘‘،’’ شعلۂ طور‘‘ اور ’’آتش گل‘‘ کے اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ جگر کے نزدیک حاصل کائنات اور حقیقت کائنات محض حسن ہے۔ اسی لیے حسن و جمال کے دیدار، حسینوں کی عشوہ طرازیوں، پھولوں کی مہک اور بلبل کی چمک میں جگر یکسر گم ہو جاتے ہیں اور ان کا یہ عمل انھیں مجاز کے راستے حقیقت اور صورت سے معنی کے طریق و مسلک پر نہیں لے جاتا بلکہ وہ حسن و جمال سے مسحور اور جلوۂ صدرنگ کے افسوں سے متاثر ہو کر عشق و محبت کا نغمہ تخلیق کرتے ہیں اور درد بھری آواز میں سامعین تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ ’’داغ جگر‘’ اور ’’شعلۂ طور‘‘ کی غزلیں کلاسیکی استعارات و تشبیہات اور تغزل سے بھر پور ہیں، زندگی کا احترام، آدمیت کی قدر اور حسن کی سرشاری و مستی سے مملو ہیں۔
غزل، تغزل، کلام میں سوز وگداز، شعر خوانی کا انداز، موسیقیت، نغمہ ریزی اور دل کو چھو جانے والا ترنم جگر کی اصل پہچان ہے۔ تاہم ایسا نہیں کہ ان کی شاعری درس حیات اور نکات اخلاق سے خالی ہے۔
جگر کی شاعری کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو ان کی شاعری اور زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا دور شراب وشباب اور رندی و مستی کا دور ہے جس میں جگر ذکر حسن و عشق اور بزم مے گساری میں گھرے رہتے۔ ان کاخیال تھا کہ :
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
تو پھر یہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرے
ایسے اسلوب و طرز کی شاعری کرنے والا شاعر امتداد زمانہ کے اثر سے نہیں بچتا۔ آزادی کے بعد کے اثرات، ہجرت، خوں ریزی، قیامت خیز تباہی اور خاک و خون میں تڑپتی انسانیت اور دم توڑتی مشترکہ تہذیب نے جگر کی سرمستیوں کو صدمہ پہنچایا۔آتش گل جگر کے اسی ذہنی تغیر و انقلاب کی تخلیق ہے جو انسانیت سے حددرجہ محبت کی دلیل ہے۔ اسے ہم جگر کے دوسرے دور کی شاعری کہہ سکتے ہیں۔ ایسے ہی ماحول اور ایسی ہی فضا میں جگر کی تڑپ نے پکارا :
فکر جمیل خواب پریشاں ہے آج کل
شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کل
سلامت تو، تیرا میخانہ تیری انجمن ساقی
مجھے کرتی ہے اب کچھ خدمت دارورسن ساقی
جگر نے تقسیم ہند و پاک کے سانحے کو سماجی اور خارجی حقائق کی سچی تصویر مانا اور اسے غزل کے مزاج و فن سے ہم آہنگ کر کے تاریخ کا ایک حصہ بنا دیا :
بھری بہار میں تاراجئ چمن مت پوچھ
خدا کرے نہ پھر آنکھوں سے یہ سماں گزرے
کہاں کے لالہ و گل کیا بہار توبہ شکن
کھلے ہوئے ہیں دلوں کی جراحتوں کے چمن
صیاد پر ظاہر یہ بھی راز نہیں ہے
پرواز اسیر پر پرواز نہیں ہے
چمن ہی نہیں جس کے گوشے گوشے میں
کہیں بہار نہ آئے کہیں بہار آئے
دنیااور دنیا کے تمام وسائل ، سہولتیں اور علوم سب کے سب انسان کی خدمت ترقی ، تہذیب اور تکریم و تعظیم کے لیے ہیں کیونکہ انسان تمام مخلوقات میں اشرف مخلوق ہے، اس کی تخلیق احسن ساخت میں کی گئی ہے۔ اس لیے زندگی کا احترام، انسانیت و آدمیت کی قدر کو ترجیحی حیثیت حاصل ہے۔ جگر کا سماجی شعور بہت پختہ ہے لیکن انھیں سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سیاسی پھندوں اور داؤ پیچ سے کوئی لگاؤ نہیں۔ وہ اہل سیاست کے کام نہیں ، محبت کے پیغام میں یقین رکھتے تھے۔
جگر نے بالارادہ اردو زبان و ادب کی خدمت نہیں کی، بلکہ ادب برائے حظ و انبساط کے قائل تھے۔ شاعری برائے شاعری، شاعری برائے حسن و عشق اور شاعری برائے زندگی کی ہے۔ ان کے مسلک میں انسان اور زندگی تخلیق کائنات کا محور و مرکز اور مقصد ہے۔ داغ جگر اور شعلۂ طور کی غزلیں بادی النظر میں شعر برائے نشاط کی طرف ذہن کو لے جاتی ہیں لیکن بغور تجزیے کے بعد دیکھا جائے تو ان میں بھی زندگی اور تلازمۂ حیات کی ترجمانی ہوتی ہے کیونکہ ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کا نکتہ ارتکاز ایک ہی ہے۔ انسانیت کی بقا، ترقی، مسرت و حظ نیز تمام زبانوں اور مضامین، خواہ وہ ادب و سائنس ہو یا جدید ٹیکنالوجی سب کا مقصد و منشا سماج کو مسرت بہم پہنچانا ہے۔ ادب کا افادی نظریہ بھی امن و انصاف اور تسکین قلب و خوشی فراہم کرنا ہے۔ دنیا کو ظلمت سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔
جگر کو معرفت ذات اور عرفان کائنات کے فرق و امتیاز کا شدت سے احساس ہوا۔ جب وہ صرف حسن و عشق اور شراب و شباب کی شاعری کی مستی میں غرق تھے تو اس وقت بھی وہ انجانے طور پر نہیں بلکہ شعوری طور پر کائنات کی خوبصورتی اور نقوش حیات سے ہم کلام ہوتے تھے۔ کیونکہ غالب کے نزدیک سارے نقوش فریادی ہوتے ہیں لیکن انسان دل فطرت شناس سے محروم ہے۔ سکوت لالہ و گل کی گفتگو سننے کی صفت سے عاری ہے :
باہمہ ذوق آگہی ہائے رے پستی بشر
سارے جہاں کا جائزہ اپنے جہاں سے بے خبر
تسخیر مہر و ماہ مبارک تجھے مگر
دل میں اگر نہیں تو کہیں روشنی نہیں
جگر سچے شاعر ، زندگی کے مزاج شناس اور مبصر تھے۔
وہ ہمیں ہیں کہ جن کے ہاتھوں نے
گیسوئے زندگی سنوارے ہیں
شہنشاہ تغزل جگر مراد آبادی نے ۹ ستمبر ۱۹۶۰ء کو گونڈہ میں آخری سانسیں لیں۔ غزل کے اس کلاسیکی شاعر کو اردو شاعری کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں یاد کیا جاتا رہے گا۔
نمونہۂ کلام
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے
سلسلہ فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
کاروبارِ جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے
روح کو بھی مزہ محبت کا
دل کی ہمسایگی سے ملتا ہے
O
حب ہر اک شورشِ غم ضبط فگاں تک پہنچے
پھر خدا جانے یہ ہنگامہ کہاں تک پہنچے
آنکھ تک دل سے نہ آئے نہ زباں تک پہنچے
بات جس کی ہے اسی آفت جاں تک پہنچے
کیا تعجب کہ مری روح جواں تک پہنچے
پہلے کوئی مرے نغموں کی زباں تک پہنچے
حسن کے نغمے بھی خاموش زباں تک پہنچے
اب ترے حوصلے اے عشق یہاں تک پہنچے
میرے اشعار میں جو آگ بھری ہے اے کاش !
تجھ کو راس آئے، ترے غم جواں تک پہنچے
رہِ عرفاں میں اک ایسا بھی مقام آتا ہے
ہر یقیں بڑھ کے جہاں وہم و گماں تک پہنچے
اُف وہ کیفیتِ غم، آنکھ جسے دیکھ سکے !
ہائے وہ درد کی لذت جو زباں تک پہنچے
جو زمانے کو برا کہتے ہیں خود ہیں وہ بُرے
کاش یہ بات ترے گوش گراں تک پہنچے
اِن کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
مرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
جلوے بے تاب تھے جو پردہ، فطرت میں جگر
خود تڑپ کر مری چشم نگراں تک پہنچے
O
رکھتے ہیں خضر سے نہ غرض رہنما سے ہم
چلتے ہیں بچ کے دور ہر اک نقشِ پا سے ہم
مانوس ہو چلے ہیں جو دل کی صدا سے ہم
شاید کہ جی اٹھے تری آوازِ پا سے ہم
یارب نگاہ شوق کو دے اور وسعتیں
گھبرا اٹھے جمالِ جہت آشنا سے ہم
مخصوص کس کے واسطے ہے رحمتِ تمام
پوچھیں گے ایک دن یہ کسی پارسا سے ہم
او مستِ نازِ حسن تجھے کچھ خبر بھی ہے
تجھ پہ نثار ہوتے ہیں کس کس ادا سے ہم
یہ کون چھا گیا ہے دل و دیدہ پر کہ آج
اپنی نظر میں آپ ہیں نا آشنا سے ہم
O
(بشکریہ اردو دنیا، بھارت )