اوسلو کی مقامی آبادی اپنے ہی ملک میں اجنبی

اوسلو کے مضافات پر لکھی گئی کتاب
فیض عالم سن کا کہنا ہے کہ یہ کتاب جو کہ اوسلو کے مضافاتی علاقوں پر لکھی گئی ہے ۔اس میں نہ تو نسلی منافرت نظر آتی ہے اور نہ ہی اس میں اسلام فوبیاء ہے۔یہ بات فیض نے کہی جن کی پرورش مشرقی ناروے میں ہوئی ہے۔ایک ملٹی کلچرل نارویجن زبان کے اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے فیض نے کہا کہ ہمیں ان علاقوں کے بارے میں بغیر کوئی لیبل لگائے گفتگوکرنی چاہیے۔ماہر سماجی علوم اور مصنف فوسلی Halvor Foslis نے اپنی کتاب مین خاموش اکثریت کو موضوع بنایا ہے۔جو تارکین وطن کے طوفان کی وجہ سے خود اپنے ہی ملک میں اجنبی بن کر رہ گئے ہیں۔کتاب میں مصنف نے رنگ و نسل کے تناظر میں بات نہیں کی بلکہ اس نے تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کی بات کی ہے۔اس کتاب نے اخبارات اور سوشل مجیڈیا پر ایک نئی بحچ کو شروع کر دیا ہے۔
ایک نارویجن نے اس کتاب کے تبصرے میں لکھا کہ میرا بچہ جس اسکول میں جاتا ہے وہاں پچاس فیصد مسلمان بچے ہیں جو طرح طرح کے مسائلپیدا کرتے رہتے ہیں۔مثلاً حلال کھانے اور لائف اسٹائل کے مسائل وغیرہ۔ایس وی کے سیاستدان Guri Waalen Borch نے کہا کہ یہاں کے رہنے والے بڑے مزے سے سالگرہ مین حلال ہاٹ داگز کھاتے ہیں بغیر کسی ڈر خوف کے کہ مسلامن ایک دن پورے ملک پر قابض ہو جائیں گے۔ہم کسی یہودی بستی میں نہیں رہتے۔اس کتاب سے اسلام فوبیا کو ہوا ملتی ہے۔
یہ بہت فکر کی بات ہے کہ مقامی لوگوں کے لیے گو رود دالن Goru rud daln میں رہنا کتنا مشکل ہو گیا ہے۔سیاستدان نے مزید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فوصلی نے اپنی کتاب میں اظہار کے لیے مقامی آبادی کو بطور یرغمال استعمال کیا ہے۔
NTB/UFN

اپنا تبصرہ لکھیں