عصمت چغتائی selected by
khan kamal
سر داري کے چوکے پر آج صاف ستہري جازم بچھي تھي، ٹوٹي پھوٹي چھريوں ميں سے دھوپ کے آرے ترچھے قتلے پورے دلان ميں بکھرے ہوئے تھے، ٹولے کي عورتيں خاموش اور سبھي ہوئي سي بيٹھي تھيں جيسے کوئي بڑي واردات ہونےوالي ہو، مائوں نے بچے چھاتيوں سے لگائے تھے کبھي کبھي کوئي خستي سا چڑا چڑا بچہ رصد کي کمي کي دہائي دے کر چلا اٹھتا۔
نائيں نائيں ميرے لال دبلي پتلي ماں اسے اپمے گھٹنے پر لٹا کر يوں جيسے دھان ملے چاول دھوپ ميں پھٹک رہي ہو، اور پھر ہنکارے بھر کر ابھي سفيد گزري کا نشاني ہو اٹھنے کي کسي کي ہمت نہ پڑي تھي، کاٹ چھانٹ کے معاملہ ميں کبري کي ماں کا مرتبہ بہت اونچا تھا اس کے سوکھے سوکھے ہاتھوں نے نہ جانے کتنے جيہز سنوارے تھے، کتنے چھٹي چھو چکے اور کتنے ہي کفن پيونتے تھے جہاں کہيں محلے ميں کپڑا کم پڑجاتا اور لاکھ جتن پر بھي بيونت و بيٹھتي کبري کي ماں کپڑے کي کان نکاليتں کلف توڑتين کبھي تکون بناتيں کبھيچوکھنا کر تيس اور دل ہي دل ميں قينچي چلا کر آنکھوں سےناپ تول کر مسکرا پڑتيں۔
آستيں کيلئے گھير تو نکل آئے گا گريباں کيلئے کترن ميري بقيچي سے لے لو، اور مشکل آسان ہوجاتي ہے، کپڑا تراش کردہ کترنوں کي پنڈي بناکر پکڑاديتيں۔
يوں تو آج سفيد گزي کا ٹکڑا بہت ہي چھوٹا تھا اور سب کو يقين تھا کہ آج تو کبري کي ماں کي ناپ تول رہ جائے گي، جب ہي تو سب دم سادھے ان کا منہ تک رہي تھيں، کبري کي ماں کے استقلال چہرے پر فکر کي کوئي شکل نہ تھي چارہ گر گڑي کے ٹکڑے کو ہو نگاہوں سے پينوت رہي تھيں، لال ٹولکا عکس ان کے نيلگوں زرد چہرے پر شفق کي طرح پھوٹ رھا تھا، وہ اداس اداس گہري جھرياں اندھيري گھٹائوں کي طرح ايک دم اجاگر ہوگئيں جيسے گھنے جنگل ميں آگ بھڑک اٹھي ہو، اور انہوں نے مکسرا کر قينچي اٹھالي۔
محلہ واليوں کے جمگھٹے سے ايک لمبي اطمينان کي سانس ابھري گود کے بچے بھي ٹھسک دئيے گئے، چيل جيسي نگاہوں والي کنواريوں نے چمپا چپ سوئي کے ناکوں ميں ڈورے پردئے بياہي دلہنوں نے انگشنا نے پہن لئيے کبري کي ماں کي قينچي چل پڑي تھي۔
سہ وردي کے آخري کونے ميں پلنگڑي پر حميد پير لٹکائے ہتھيلي پر تھوڑي رکھے دور کچھ سوچ رہي تھي۔
دوپہر کا کھانا نمٹا اسي طرح بي اماں سر دري کي چوکي پر جا بيٹھي اور بقيچي کھولکر برنگے کپڑوں کا جال بکھير ديا کرتي ہيں، کونڈھي کے پاس ميٹھي مانجھي ہوئي کبري کن آنکھيوں سےان لال کپڑوں کو ديکھتي تو ايک سرخ جھپکي اس کے زردي مائل مٹيالے رنگ ميں لپک اٹھتي، رو پلي کٹوريوں کے جال جب پولے پولے ہاتھوں سے کھول کر اپنے زانوں پر پھيلاتيں تو ان کا مرجھايا ہوا چہرہ ايک عجيب ارمان بھر روشني سے جگمگا اٹھتا، گہري صندوقوں جيسي شکنوں پر کٹوريوں کا عکس نھني نھني مشعلوں کي طرح جگمگانے لگتا ہر ٹانکے پر رزي کا کام ہلتا اور مشعليں کپکپا
اٹھتيں۔
اٹھتيں۔
ياد نہيں کب اس کے شبنمي دو پٹے بنے، تکے تيار ہوئے اور گاڑي کے بھاري قبر جيسے صندوق کي تہ ميں ڈوب گئے، کٹوريوں کے جال دھندلا گئے گنگا جمني کرنيں مانند پڑگئيں، طولي کے لچھے اداس ہوگئے مگر کبري کي برات نہ آئي، جب ايک جوڑا پرانا ہوجاتا ہے تو اسے چالے کا جوڑا کہہ کر سيت ديا جاتا ہے، اور پھر ايک نئے ہوڑے کے ساتھ اميدوں کا افتتاح ہوجاتا ہے، بڑي چھان بين کے بعد نئي دلہن چھانٹي جاتي ہے سہ دري کے چوکے پر صاف ستھري چادر بچھتي محلہ کي عورتيں ہاتھ ميں پاندان اور بگلو ميں بچے دبائے جھانجھيں بناتي آن پہنچتيں۔
چھوٹے کپڑے کي گونت تو اترآئے گي پہيچوں کا کپڑا نہ نکلے گا۔
بولو اور سنو تو کيا نگوڑ ماري تول کي چوليس پڑي گي، اور پھر سب کے چہرے فکر مند ہوجاتے کبري کي ماں خاموش کيميا کي طرح آنکھوں کے فيتے سے طول و غرض ناپتي اور بيوياں آپس ميں چھوٹے کپڑے کے متعلق کھسر پھسر کرکے قہقہ لگائيں ايسے ميں کوئي من چلي کوئي سہاگ يا بنا چھيڑديتي کوئي اور چار ہاتھ آگے والي سمدھنوں کو گالياں سنانے لگتي بيہودہ گندے مذاق اور چہليں شروع ہوجاتيں اسيے موقعوں پر کنواري باليوں کو سہ دري سے دور سر ڈھانک کر کھپريل ميں بيٹھنے کا حکم دے ديا جاتا اور جب کوئي نيا قہقہ سر وري سے ابھرتا تو بے چارياں ايک ٹھنڈي سانس بھر کر رہ جاتيں اللہ يہ قہقے انہيں خود کب نصيب ہوں گے؟ اس چہل پہل سے دور کبري شرم کي ماري مچھروں والي کوٹھري ميں سر جھکائے بيٹھي رہتي اتنے ميں کتر بيونت ناوک مرحلے پر پہنچ جاتي کوئي کلي الٹي کٹ جاتي اور اس کے ساتھ بيويوں کي مت بھي کٹ جاتي کبري سہم کر دروازے کے آڑ جھانکتي۔
يہي تو مشکل تھي کوئي جوڑ اللہ مارا چين سے نہ سلنے پايا جو کلي الٹي کٹ جائے تو جان لو نائن کي لگائي ہوئي بات ميں ضرور کوئي اڑنگا لگے لگا، يا تو دولہا کي کوئي داشتہ نکل آئے گي يا اس کي ماں ٹھوس کڑوں کا اڑنگا باندھنے گي، جو گوٹ ميں کان آجائے تو سمجھ لو يا تو مہر پر بات ٹوٹے گي يا بھرت کے پايوں کے پلنگ پر جھگڑا ہوگا، چوتھي کے جوڑے کا شگون بڑا نازک ہوتا ہے، بي اماں کي ساري مشتاقي اور سگھڑ پادھرا رہ جاتا نہ جانے عين وقت پر کيا ہوجاتا کہ دھنيا برابر بات طول پکڑ جاتي، بسم اللہ کے زور سے سگھرماں نے جہيز جوڑنا شروع کيا تھا، ذرا سي کترن بھي بچتي تو تيلے داني شيشي کا غلاف سي کردھنگ کو گھروں سے سنوار کر رکھ ديتيں، لڑکي کا کيا ہے کھيرے ککڑي کي طرح بڑھتي ہے جو برات آگئي تو يہي سليقہ کام آئے گا۔
اور جب سے ابا گزرے سليقہ کا بھي دم پھول گيا ہے، حميدہ کو ايک دم ابا ياد آگئے کتنے دبلے پتلے لمبے جيسے محرم کا علم، ايک بار جھک جاتے تو سيدھے کھڑا ہونا دشوار تھا، صبح ہي صبح اٹھ کع مسواک توڑليتے اور حميدہ کو گھٹنے پر بھٹا کر نہ جانے کيا سوچا کرتے پھر سوچتے سوچتے نيم کي مسواک کا کائي پھونسڑا حلو ميں چلا جاتا اور وہ کھانستے ہي چلے جاتے، حميدہ بغر کر ان کي گود سے اترتي، کھانسي کے دھکوں سے يوں بل بل جاتا اسے قطعي پسند نہ تھا، اس کے نھنے سے غصے پر ہو ہنستے اور کھانسي سينے ميں بے گرح الجھتي گردن کٹے کبوتر پھڑ پھڑا رہے ہوں پھر بي اماں آکر انہيں سہلا ديتيں پيٹھ پر دھپ دھپ ہاتھ مارتيں۔
تو يہ ايسي بھي کيا ہنسي اچھو کے دبائوں سے سرخ آنکھيں اوپر اٹھا کر ابا بے کسي سے مسکراتے، کھانسي تو رک جاتي مگروہ دور تک بيٹھے ہانپہ کرتے۔
بڑے شفا خانے کا ڈاکٹروں کي صورت پر ايک تو کھانسي ہے اور اوپر سے چکنائي، بلغم نہ پيدا کردے گي، حکيم کو دکھائوں کسي دکھائوں گا ابا حقہ گڑ گڑاتے اور پھر اچھو لگتا۔
آگے لگے اس موے حقے کو اسي نے تو يہ کھانسي لگائي ہے جو ان بيٹي کي طرف بھي ديکھتے ہو آنکھ اٹھا کر۔
اور کبري کي جواني کي طرف رحم طلب نگاہوں سے ديکھتے، کبري جوان تھي کون کہتا تھا، جوان تھئ اور وہ تو جيسے بسم اللہ کے دن سے ہي اپني جواني کي آمد کي سنائوني سن کر ٹھٹکھ کر رہ گئي تھي نہ جانے کيسي جواني آئي تھي کہ نہ تو اس کي آنکھوں ميں کرنيں ناچيں نہ اس کے رخساروں پر زلفيں پريشان ہوئيں، نہ اس کي سينے پر طوفان اٹھے اور نہ کبھي ساون بھادوں کي گھٹائوں سے مچل مچل کر پريم يا ساجن مانگے وہ جھکي جھکي سہمي سہمي جواني جو نہ جانے کب دبے پائوں اس پر رينگے آئي، ويسے ہي چپ چاپ نہ جانے کدھر چل دي، ميٹھا برس نمکين ہوا اور پھر کڑوا ہو گيا۔
ابا ايک دن چکھٹ پت اوندے منہ گرے اور انہيں اٹھانے کيلئے کسي حکيم يا ڈاکڑ کا نسخہ کام نہ آسکا اور حميد نے ميٹھي روٹي کيلئے ضد کرني چھوڑدي اور کبري کے پيغام نہ جانے کدھر راستہ بھول گئے، جانو کسي کو معلوم ہي نہيں کہ اس ٹاٹ کے پردے کے پيچھے کسي کي جواني آخري سسکياں لے رہي ہے اور ايک نئي جواني سانپ کے پھن کي طرح اٹھ رہي ہے۔
مگر بي اماں کا دستور نہ ٹوٹا اور وہ اسي طرح روز دوپہر کو سعدي ميں رنگ برنگے کپڑے پھيلا کر گڑيوں کا کھيل کھيلا کرتي ہيں کہيں نہ کہيں سے جوڑ جمع کرکے شبرات کے مہينے ميں کريب کا دوپٹہ ساڑھے سات روپے ميں خريد ہي ڈالا ، بات ہي ايسي تھي کے بغير خريدے گزارا نہ تھا مجلھے ماموں کا تار آي کہ ان کا بڑا لڑکا راہت پوليس کي ٹريننگ کے سلسلے ميں آرہا ہے بي اماں کو تو جيسے دم گھبراہٹ کا دورہ پڑہ گيا، جانو چوکھٹ پر برات آن کھڑي ہوئي اور انہوں نے ابھي دلہن کي مانگ کي افشاں بھي نہيں کتري، ہول سے تو ان کے چھکے چھوٹ گئے اپني منہ بولي بہن بندو کي ماں کو بلا بھيجا کہ بہن ميرا مري کا منہ ديکھوں جو اسي گھڑي نہ آئو۔
اور پھر دونوں ميں گھسر پسر ہوئي بيچ ميں ايک نظر دونوں کبري پر بھي ڈال ليتيں جو دالان ميں بيٹھي چاول پھٹک رہي تھي وہ اس کانا پھوسي کي زبان کو اچھي طرح سمجھتي تھي۔
اسي وقت بي اماں نے کانوں کي چار ماشہ کي لونگيں اتار کر منہ بہن کے حوالے کيں جيسے تيسے کرکے شام تک تو بھر گو گھر وچھ سلمہ ستارا اور پاوگز نيفے کيلئے ٹول لاديں، باہر کي طرف والا کمرہ بونچھ کر تيار کيا، تھوڑا سا چونا منگا کر کبري نے اپني ہاتھوں سے کمرہ پور ڈالا، کمرہ تو چٹا ہو گيا مگر اس کي ہتھيليوں کي کھال اکھڑ گئي، اور وہ جب شام کو مصالحے پيسنے بيٹھي کو چکر کھاکر دوہري ہوگئي، ساري رات کروٹيں بدلتي گزري، ايک ہتھليوں کي وجہ سے دوسرے صبح کي گاڑي سے راحت آرہے تھے۔
اللہ ميرے اللہ مياں اب کے تو ميري آپا کا نصيبہ کھل جائے، ميرے اللہ ميں سو رکعت نفل تيري درگاہ ميں پڑھوگي، حميدہ نے فجر کي نماز پڑھ کر دعا مانگي صبح راحت بھائي آئے تو کبري سے ہي مچھروں والي کو تھري ميں جا چھپي، جب سيويوں اور پراٹھوں کا ناشتہ کر کے بيٹھک ميں چلے۔
بتائے نا؟
اري ٹھيک سےجاکر پوچھ بي اماں نے ٹھوکاديا۔
آپ نے لاکر دئيے اور ہم نے کھائے مزيدار ہي ہوں گے۔
ارے وارہ رے جنگلي بي اماں سے رہا نہ گيا۔
تمہیمں پتہ بھي نہ چلا کيا مزرے سے کھلي کے کباب کھاگئے۔
کھلي کے ارے تو روز کا ہے کے ہوتے ہيں، ميں عادي ہو چکا ہوں کھلي اور بھوسا کھانے کا۔
بي اماں کا منہ اترگيا بي آپا کي جھکي ہوئي پلکيں اوپر نہ اٹھ سکيں۔
دوسرے روز بي آپا نے روزانہ سئ دوگني سلائي کي اور پھر شام کو جب کھانا لے کر گئي تو بولے کہئيے آج کيا لائے، آج تو لکڑي کے برادے کي باري ہے، کيا ہمارے يہاں کا کھانا آپ کو پسند نہيں آتا؟ ميں نے جل کر کہا، يہ بات نہيں کچھ عجيب سا معلوم ہوتا ہے کبھي کھلي کے کباب تو کبھي بھو سے کي ترکاري۔
ميرے تن بدن ميں آگ لگ گئي ہم سوکھي روٹي کھاکے اسے ہاتھي کي خوراک ديں گھي ٹپکتے پراٹھے ٹھنسائيں ميري آپا کو جوشاندہ نصيب نہيں اور اسے دودھ ملائي نگلوائيں ميں بھنا کر چلي آئي۔
بي اماں کي منہ بولي بہن کا نسخہ کام آگيا اور راحت نے دن کا زيادہ حصہ گھر پر گزارنا شروع کرديا۔
بي آپا تو چولہے ميں پھل رہتيں، بي اماں چوتھي کے جوڑے سيا کرتيں اور راحت کي غليظ آنکھيں تير بن کے ميرے دل ميں چبھا کرتيں، بات بے بات چھيڑنا کھانا کھلاتے وقت کبھي پاني، نمک کے بہانے سے اور ساتھ ساتھ جملہ بازي ميں کھسيا کر بي آپا کے پاس جا بيٹھي جي چاہتا ہے کہ کسي دن صاف کہہ دوں کہ کس کي بکري اور کون ڈالےدانہ گھاس، ابے بي مجھ سے تمہار يہ بيل نہ تھا جائے گا، مگر بي آپا کے الجھے ہوئے بالوں پر چولہے کي اڑتي ہوئي راکھ نہيں ميرا کليجہ دھک سے ہوگيا ميں نے ان کے سفيد بال لٹ کے نيچے چيھپادئيے، ناس جائے اس کم بخت نزلہ کا بچاري کے بال پکنے شروع ہوگئے۔
راحت نے پھر کسي بہانے سے مجھے پکارا اورنہ ميں جل گئي پر بي آپا نے کٹي ہوئي مرغي کے طرح جو پلٹ کي ديکھا تو مجھے جانا ہي پڑا۔
آپ ہم سے خفا ہوگئيں راحت نے پاني کو کٹورا لےکر ميري کلائي پکڑ لي، ميرا دم نکل گيا، اور بھاگي تو ہاتھ جھٹک کر، کيا کہ رہے تھے بي آپا نے شرم و حيا سے گھٹي ہوئي آواز ميں کہا ميں چپ چاپ ان کا منہ تکنے لگي۔
کہ رہے تھے کس نے پکايا ہے کھانا، چاہتا ہے کھاتا ہي جائو، پکانے والي کے ہاتھ کھا جائوں، اوہ نہيں کھا نہيں بلکہ چوم لوں، ميں نے جلدي جلدي کہنا شروع کي اور بي آپا کھر دار ہلدي دھنيا کي بساند ميں سڑا ہوا ہاتھ اپنے ہاتھ سے لگايا، ميرے آنسو نکل گئے، يہ ہاتھ ميں نے سوچا جو صبح سے شام تک مصالحہ پيستے ہيں پاني بھرتے ہيں پياز کاٹتے ہيں بستر بچھاتے ہگيں جوتے صاف کرتے ہيں يہ بيکس غلام صبح سے شام تک جٹے ہي رہتے ہيں، ان کي بيگار گي کب ختم ہوگي۔
کيا ان کا کوئي خريدار نہ آئے گا؟ کيا انہيں کوئي پياز سے چومے گا کيا ان ميں کبھي مہندي نہ رچے گي کيا ان ميں کبھي سہاگ کا عطر نہ بسے گا چاہا زور سے چيخوں۔
اور کيا کہ رہے تھے بي آپا کے ہاتھ تو اتنے کھر در تھے پر آواز اتني سريلي تھي کہ اگرراحت کے کان ہوتے تو۔۔۔۔۔مگر راحت کے نہ کنا تھے نہ ناک بس دوزخ جيسا پيٹ تھا اور کہ رہے تھے کے اپني آپا سے کہنا کام نہ کيا کريں اور جوشاندہ پيا کريں، چل جھوٹي۔
ارے وہ جھوٹے ہوں گے آپ کے وہ۔۔۔۔۔اري چپ مردار انہوں نے ميرا منہ بند کرديا۔
ديکھ تو سوئٹر بن فيا ہے انہيں دے آ، پر ديکھ تجھے ميري قسم ميرا نام نہ ليجيو نہيں آپا نہيں نہ دو وہ سوئٹر ان مٹھي بھر ہڈيوں کو سوئٹر کي کتني ضرورت ہے ميں کہنا چاہا پر رک گئي۔
آپا تم خود کيا پہنوگي؟
ارے مجھے کيا ضرورت ہے جولہےکے پاس تو ويسے ہي جھلس رہتي ہے۔
سوئٹر ديکھ کر راحت نے اپني ايک ابرو رات سے اوپر تان کر کہا۔
کيا يہ سوئٹر آپ نے بنا ہے؟
نہيں تو۔
تو پھر ہم نہيں پہنچيں گے۔
ميرا جي چاہتا کہ اس کا منہ نوچ لوں کمينے مٹي کےتودے، يہ سوئٹر ان ہاتھوں نے بنا ہے جو جيتے جاگتے غلام ہيں، اس کے ايک ايک پھندے ميں کسي نصيبوں جلي کے ارمانوں کي گردنيں پھنسي ہوئي ہيں، يہ ان ہاتھوں کا بنا ہوا ہے جو نھنے پنگورے جھلانے کيلئے بنائے گے ہيں ان کو تھام لو گدھے کہيں کہ اور يہ دو پتوار بڑے سے بڑے طوفان کے تھپڑوں سے تمہاري زندگي کي نائو کو بچا کر پار لگاديں گے۔
انہيں پيانو پر رقص کرنا نہيں سکھايا گيا، انہيں پھولوں سے کھيلنا نصيب ہوا، مگر يہ ہاتھ تمہارے جسم پر چربي چڑھانے کيلئے صبح سے شام تک سلائي کرتےہيں، صابن اور سوڈے ميں ڈبکياں لگاتے ہيں، چولہے کي آنچ سہتے ہيں، تمہاري غلاظتيں سہنے ہيں تمہاري غلاظتين دھوتے ہيں، تاکہ تم اجلے چتے بگال بگھتي کا ڈھونگ رچائے رہو، محنت نے ان ميں ذخم ڈال دئيے ہيں، ان ميں کبھي چوڑياں نہيں کھنکتي ہيں انہيں کبھي کسي نے پيار نہيں تھاما، مگر چپ رہي، يہ سوئٹر تو آپ ہي پہن ليجئے ديکھئے نا آپ کا کرتا کتنا باريک ہے؟
جنگلي بلي کي طرح ميں نے اس کا منہ، ناک اور گريباں اور نوچ ڈالے اور اپني پلنگڑي پر جا گري، بي آپا نے آخري روٹي ڈال کر جلدي جلدي ہاتھ دھوئے، اور آنچل پونچھتي ميرے پاس آبيٹھي۔
وہ بولے؟ ان سے نہ رہا گيا ہے، تو دھڑکتے ہوئے دل سے پوچھا۔
بي آپا راحت بھائي بڑے خراب آدمي ہيں ميں سوچا کہ ميں آج سب کچھ بتادوں گي۔
کيوں؟ وہ مسکرائيں۔
مجھے اچھے نہيں لگتے۔۔۔ديکھئے ميري ساري چوڑياں چورہ چورہ ہوگئيں ميں کانپتے ہوئے کہا۔
بڑے شرير ہيں انہوں نے رومانٹک آواز ميں شرما کر کہا۔
منہ بولي بہن سے پھر کانفرنس ہوئي اور معاملات کو اميد افزا راستے پر گامزن ديکھ کر از حد خوشنودي سے مسکرايا گيا۔
اے ہے تو بڑي ٹھس ہے اے ہم تو اپنے بہنويوں کا خدا کي قسم ناک ميں دم کرديا کرتے تھے۔
اور وہ مجھے بہنويوں کے چھيڑ چھاڑ کے ہتھکنڈے بتانے لگيں، کہ کس طرح انہوں نے صرف چھيڑ کے تير بہدف نسخے سے ان دو نمبري بہنوں کي شادي کرائي جن کي نائو پار لگنے کے سارے موقعے ہاتھ سے نکل چکے تھے، ايک حکيم صاحب تھے اور دوسرے وائسرائے کے دفتر ميں کلرک تھے، کبھي گلوريوں ميں مرچيں بھر کے بھيج ديں کبھي سوئيوں ميں نمک ڈال کر کھلا ديا۔
کيا ميري آپا مردکي بھوکي ہيں نہيں وہ بھوک کے احساس سے پہلے ہي سہم چکي ہے مرد کا تصور اس کے ذہن ميں ايک امنگ بن کر نہيں ابا بلکہ روٹي کپڑے کا سوال بن کر ابھرا وہ ايک بيوہ کي چھاتي کا بوجھ ہے اس بوچھ کو ڈھکينا ہي ہوگا، مگر اشاروں کتابوں کے باوجود راحت مياں نہ تو خود منہ دے پھوٹے اور نہ ہي ان کے گھر سے کوئي پيغام آيا، تھک کر ہار کر بي اماں نے پيروں کے ٹورے گردي رکھ کر ہر مشکل کشا کي نيا دلا ڈالي دوپہر بھر محلے ٹولے کي لڑکياں ادھم مچاتي رہيں، بي آپا شرمائي لجائي مچھرون والي کوٹھري ميں اپنے خون کي آخري بنديں چسانےکو بيٹھي، بي اماں کو کمزوري ميں اپني چوکي پر بيٹھي چوتھي کے جوڑے ميں آخر تانکے لگاتي رہيں، آج ان کے چہرے پر منزلوں کے نشان تھے آج مشکل کشائي ہوگي بس آنکھوں کي سوئياں رہ گئي ہيں، وہ بھي نکل جائيں گے آج ان کے جھريوں پر مشعليں تھر تھرا رہي تھيں، بي آپا کي سہيلياں ان کو چھڑ رہي تھيں، اور وہ خون کي بچي کچھي بوندوں کو تائوں ميں لارہي تھي آج کئي روز سے انکا غبار نہيں اترا تھا، تھکے ہارے دئيے کي طرح ان کا چہرہ ايک بار ٹمٹاتا اور پھر بجھ جاتا اشارے سے انہوں نے مجھے اپنے پاس بلايا، اپنا آنچل ہٹا کر نياز کے مليدے کي طشتري مجھے تمھادي، اس پر مولوي صاحب نے دم کيا ہے ان کي بخار کي دہکتي ہوئي گرم گرم سانس ميرے کام ميں لگي۔
گشتري لے کر ميں يہ سوچنے لگي يہ مقدس مليدہ راحت کے تندور ميں جھونکا جائے گا، وہ نندور جو چھ مہينے سے ہمارے خون سے چھينٹوں سے گرم رکھا گيا، يہ دم کيا ہوا مليدہ مراد بر لائے ميرے کانوں ميں شاديانے بجنے لگے ميں بھاگي بھاگي کوٹھے سے برات ديکھنے جارہي ہوں دولہا کے منہ پر لمبا سا سہر پڑا ہے جو گھوڑے ي ايام کو چوم رہا ہے۔
چوتھي کا جوڑا پہنے پھولوں سے لدي شرم سے نڈھال آہستہ آہستہ قدم تولتي بي آپا چلي آرہي ہيں۔۔۔۔جو تھي کازرتار جوڑا جھلمل کررہا ہے بي اماں کا چہرہ پھولوں کي طرح کھلا ہوا ہے، بي آپا کي حيا سے بوجھل آنکھيں ايک بار اوپر اٹھري ہيں شکريہ کا ايک آنسو دھلک کر افشا کےزروں سے قمقمے کي طرح الجھ جاتا ہے، يہ سب تيري ہي محنت کا پھل ہے بي آپا کي خاموشی کہہ رہي تھي۔
جائو ميري بہن بي آپا نے اسے جگايا اور وہ جونگ کر کراوڑھني کے آنچل سےآنسو پونچھتي ہوئي ڈيوڑھي کي طرف بڑھي، يہ مليدہ اس نے اچھلتے ہوئے دل کو قابو ميں رکھتے ہوئے کہا اس کے پير لزر رہے تھے وہ سانپ کي بابني ميں گھس آئي ہو، اور پھر پہاڑ کھسکا اور منہ کھول ديا، وہ ايک دم پيچھے ہٹ گئي مگر دور کہيں بارات کي شہانيوں نے چيخ لگائي جيسے کوئي انکا گلا گھونٹ رہا ہو، کانپتے ہاتھوں سے مقدس مليدے کو نوالہ بناکر اس نے راحت کے منہ کي طرف بڑھا ديا، ايک جھٹکے سے اس کا ہاتھ پہاڑ کي کھوہ ميں ڈوبتا چلا گيا نيچے تعفن اور تاريکي کے اٹھاہ غار کي گہرائيوں ميں اور ايک بڑي سي چٹان نے اس کي چيخ کو گھونٹ ديا، نياز کے مليدے کي رکابي ہاتھ سے چھوٹ کر لالٹين کے اوپر گري اور لالٹين نے زمين پر گر کر دو چار سسکياں بھريں اور گل ہوگئيں۔
باہر آنگن ميں محلے کي بہو بيٹياں مشکل کشا کي شان ميں گيت گا رہي تھي۔
صبح کي گاڑي سے راحت مہمان نوازي کا شکريہ ادا کرتا ہوا روانہ ہوگيا، اس کي شادي کي تاريخ طے ہو چکي تھي اور اسے جلدي تھي، اس کے بعد اس گھر ميں کبھي انڈے نہ تلے گئے پراٹھے نہ سکے اور سوئٹر نہ بننے گئے، دق نے جو ايک عرصے سے بي آپي کي تاک ميں بھاگي پيچھے پيچھے آرہي تھي، ايک ہي جست ميں انہيں دبوچ ليا اور انہوں نے چپ چاپ اپنا مردار وجود اس کي آغوش ميں سونپ ديا، اور پھر اس سہ دري ميں چوکي پر صاف ستھري جازم بچھائي گئي محلے کے بہو بيٹيان جڑيں کفن کا سفيد لٹھا موت کے آنچل کي طرح بي اماں کے سامنے پھيل گيا ہے۔
تحمل کے بوجھ سے ان کا چہرہ لرز رہا تھا لال ٹول پر سفيد گزي کا نشان اس کے سرخي ميں نہ جانے کتني معصوم دلہنوں کا سہاگ رچا ہے، اور سفيدي ميں کتني نامراد کنواريوں کي سفيدي ڈوب کر ابھري ہے پھر سب ايک دم خاموش ہوگئے، بي اماں نے آخري ٹانکا بھر کے ڈور توڑليا، دو موٹے موٹے آنسو ان کے روئي جيسے نرم گالوں پر دھيرے دھيرے رينگنے لگے، ان کے چہرے کي شکنوں ميں سے روشني کي کرنيں پھوٹ نکلي اور وہ مسکراديں، جيسے آج انہيں اطمينان ہو گيا کہ کبري کا سوہاجوڑا بن کر تيار ہوگيا ہے، ہوا اور کوئي دم ميں شہنائياں بج اٹھيں گي۔