پراسرا بوڑھا

شازیہ عندلیب
رخشی راؤ میسن ریلوے اسٹیشن پر بس کا انتظار کر رہی تھی۔وہ جس ادارے میں ملازمت کرتی تھی وہ ریلوے اسٹیشن کے بالکل سامنے تھا۔اس روز موسم خوشگوار تھا ۔ماہ ستمبر میں درختوں کے پتے زرد نارنجی اورسرخ نگوں میں عجب دلکشی بکھیر رہے تھے۔ ناروے جیسے دنیا کے اس سرد خطے میں یہ موسم ایک عجب تابانی لیے ہوتا ہے۔مردو خواتین ہلکے پھلکے لباس میں بہت فرحت محسوس کر رہے تھے۔رخشی راؤ درمیانی عمر کی ایک اسمارٹ عورت تھی وہ پھولدار ٹراؤذر مسٹرڈ کوٹ میں ملبوس اسٹیشن پر ایک بینچ پر بیٹھی ٹرین کا انتظار کر رہی تھی۔اس نے معلوماتی اسکرین پر دیکھا ابھی ٹرین کی آمد میں دس منٹ باقی تھے۔وہ موبائل پر خبریں پڑھنے لگی۔اس سے کچھ فاصلے پکڑے ہوئے تھا۔ بوڑھے نے اسے خوش اخلاقی سے ہائے کہا۔رخشی نے بھی خوش اخلاقی سے اسے جواب دیا۔رخشی نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے ۔وہ اسے اکثر ہفتے میں ایک دو بار بس اسٹاپ پر دیکھتی تھی۔بوڑھے نے اسپیڈ برگ اولڈ ہوم کا نام لیا۔اچھا تو تم وہاں رہتے ہو رخشی نے بوڑہے سے استفارکیا ۔مگر بوڑہے نے غیر متوقع جواب دیا۔اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا نہیں میں اپنی بیوی کے ساتھ اپنے گھرمیں رہتا ہوں ۔ میرا گھر بہت شاندار ہے ۔اچھا تو وہاں کیا کرنے جاتے ہو؟
میں وہاں میں ہفتے میں دو تین مرتبہ اپنی ماں سے ملنے جاتا ہوں۔دوسرا جواب پہلے سے بھی حیران کن تھا۔میری ماں اولڈ ہوم میں رہتی ہے مگر میں اسے اکثر اپنے گھر بھی لاتا ہوں وہ میرے گھر کئی روز رہتی ہے۔اچھا رخشی نے خوشگوار حیرت سے کہا۔ہاں اس کی یاد داشت کمزور ہو گئی ہے۔کبھی کبھی وہ مجھے بھی نہیں پہچانتی ۔مگر میرے گھر جب بھی آتی ہے اس کی یاد داشت لوٹ آتی ہے۔
ہوں ۔۔۔تو تمہاری ماں کی کتنی عمر ہے؟
میری ماں کی عمر اتنی ذیادہ نہیں وہ صرف نوے برس کی ہے مجھ سے پندرہ برس بڑی ہے ۔پہلے زمانے میں شادیاں جلدی ہو جاتی تھیں۔اچھا تو تمہاری عمر۔میں پچھتربرس کا ہوں جبکہ وہ دیکھنے میں ساٹھ پینسٹھ برس کا تندرست بوڑہا دکھائی دے رہا تھا۔ریمنڈ جوزف نے بتایا کہ اسکا باپ فوج میں ملازم تھا اور دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنوں کے خلاف محاذ جنگ پر بھی ایک سپاہی کی حیثیت سے لڑ چکا تھا۔بلکہ وہ جرمنی میں جنگی قیدی بھی رہ چکا تھا۔ اسے وہ زمانہ ابھی تک یاد ہے جب ہٹلر نے ناروے پرقبضہ کر لیا تھا۔۔ اس وقت وہ چھوٹا تھاجنگ کی بات کرتے ہوئے اس کی نیلی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی اور دھیما لحجہ پر جوش ہو گیا۔وہ جنگ عظیم کا جیتا جاگتا تاریخی کردار تھا اور عینی شاہد بھی۔۔۔یہ سوچ کر رخشی کو ایک عجیب سا پر مسرت احساس ہوا۔یعنی کہ وہ جو کچھ تاریخ کی کتابوں میں پڑہتی آ رہی تھی یا تاریخی فلموں میں دیکھتی آ رہی تھی۔وہ اس تاریخ کا حصہ تھا اور وہ سب کچھ ایک جیتے جاگتے کردار میں ڈھل کر سامنے آ گیا تھا۔
رخشی کو پل بھر کیلیے یوں لگا جیسے کسی تاریخ کی کتاب میں چھپے ہوئے گروپ فوٹو یا اسکرین پر چلتی تاریخی فلم کا ایک کردار مجسم ہو کر اس کے سامنے آ گیا ہے اور اسے جنگ میں پیش آنے والے واقعات سنا رہا ہے۔رخشی کو بوڑھے کی آواز کے پس منظر میں گولیوں کی تڑاتڑ اور توپوں کی گھن گرج بھی صاف سنائی دے رہی تھی۔ابھی وہ اس بوڑھے کے قصے سن ہی رہی تھی کہ اس کی بس آگئی وہ اسے خدا حافظ کہ کر بس میں

چلا گیا۔اس کا ہیٹ بہت پرانا تھا یقیناً جنگ عظیم کے زمانے کا ہو گا۔وہ تھوڑا لنگڑا کر چل رہا تھا۔اس نے بتایا تھا کہ جنگ کے دورا ن اس کی ٹانگ میں گولی لگی تھی۔تھوڑی دیر بعد اوسلو کی بس بھی آ گئی ۔وہ اپنا بیگ اٹھا کر بس میں سوار ہو گئی۔وہ اس احساس سے سرشار تھی جیسے اس نے چندمنٹ پہلے کوئی دلچسپ تاریخی فلم دیکھی تھی۔اس وقت اسے بالکل یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ دلچسپ کردار ا سکے لیے کتنا پریشان کن ثابت ہو گا۔بظاہر بے ضرر نظر آنے والا بوڑہا اسے کتنا عجیب ثابت ہو گا۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں