شہزاد بسراء
’’اِس ٹرالی میں جوچیز بھی میڈ اِن چائنہ ہو اُسے باہر پھینک دو‘‘۔موٹے امریکی نے ایک بڑے سٹور کے رجسٹر پر کھڑی سیلز گرل کو اپنے سامان سے بھری ٹرالی کی طرف اشارہ کرکے کہا ۔
’’دراصل میں اپنی عینک گھر بھول آیا ہوں۔ مجھے نفرت ہے کہ جو چیز بھی اُٹھاؤں میڈ ان چائنہ‘‘
’’آپ لوگ امریکی اشیاء کیو ں نہیں رکھتے ؟‘‘ موٹے امریکی نے سیلزگرل سے مزید کہا
’’سر چین اسقدر سستی اشیاء بناتا ہے کہ کوئی اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘‘۔ سیلزگرل نے مسکرا کر کہا۔
پاکستان میں ہم سمجھتے تھے کہ ہمپاکستانی ہی کاہل لوگ ہیں جو سوئی سے لے کر جہاز تک باہر سے منگواتے ہیں خود کچھ نہیں بنا سکتے ۔ترقی یافتہ ملک یقیناًہر چیز خود ہی بناتے ہونگے ۔ مگر امریکہ جا کے بہت بڑا شاک لگا کہ عام روز مرہ کی اشیاء تو تقریباََ 100فی صد امریکہ امپورٹ کرتا ہے جبکہ اسلحہ دھڑا دھڑ بنا رہا ہے۔ جسے بیچنے کیلئے اسے دنیا کو حالت جنگ میں رکھنا پڑتا ہے۔ آخر کاروبار جو چلانا ہے۔ یا پھر کمپیوٹر اور سوفٹ وئیر انٹرنٹ کا بے حد و حساب کاروبار ۔ باقی سوئی سے لے کر گھر کی ہر استعمال کی چیز ،کاسمیٹکس، گارمنٹس اور کھانے پینے کی اشیاء امریکہ بھی باہر سے ہماری طرح منگواتا ہے اور باقی دنیا کی طرح امریکہ میں بھی سب سے زیادہ میڈ ان چائنہ ۔ اگرچہ وہاں کوالٹی ہماری والی سے کہیں بہتر ہے۔ موٹا امریکی حب الوطنی میں میڈ ان چائنہ کو باہر پھینکنے کا کہ رہا تھا ۔ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ دیکھ سکتے کہ اس کی ٹرالی میں کچھ بچا بھی کہ نہیں۔ امریکہ کا ایک بہت بڑا سٹور جس کی شاخیں غالباََ سب سے زیادہ ہیں۔ اُس کا نام تو ’’وال مارٹ‘‘ ہے مگر اُسے ’’گریٹ وال آف چائینہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں جس چیز پر میڈ ان چائنہ لکھا ہو گا۔ یہی سمجھا جاتا ہے کہ ناقص کوالٹی ہے اور چند دن ہی چلے گی۔
چلے تو سال تک
نا چلے تو شام تک
اب تو یارلوگ یہ بھی کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ Loveبھی میڈ ان چائنہ ہے کہ کوئی اعتبار ہی نہیں کہ چلے نہ چلے ۔مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف غلط پراپگنڈہ ہے ۔کافی سالوں کا قصہ ہے کہ ہمارے باتھ روم سلیپر ایک کے بعد 2-3خراب ہوگئے یا تو ٹوٹ جاتے یا پھر پھسلتے ۔ بیگم کوکہا کہ کوئی میعاری چپل ہی لادو یہ کیا کہ بار بار
مہنگا روئے ایک بار
سستا روئے بار بار
سو تھوڑے پیسے خرچ کرلو اور کوئی اچھی چپل لادو ۔ بازار میں شاپنگ کیلئے پھر رہے تھے کہ بیگم کہنے لگی کہ آجکل چائنہ کی جوتیاں بھی مارکیٹ میں آئیں ہیں اور کافی اچھی ہیں۔
’’کوئی حال نہیں۔ ہم کہ رہے کہ کوئی اچھی جوتی لے کر دو اور تم کہ رہی ہو کہ چائنہ کی لے لیں‘‘ ۔ ہم نے خفگی سے کہا
’’آپ ایک دفعہ ٹرائی تو کرلیں ۔ یہ کونسی مہنگی ہے اگر خراب ہوگئی تو اور لے آئیں گے‘‘۔ بیگم نے روائتی کفائیت شعار خواتین کی طرح کہا
’’چلو جیسا آپ کہیں ۔ مگر یہ ملتی کہاں سے ہیں ؟‘‘۔ ہم نے ہتھیار ڈال دیئے
’’یہ دوکانوں سے تو نہیں، البتہ ٹھیلوں سے ملتی ہیں‘‘۔
’’ ہم تو ہر گز ٹھیلے پر نہیں جانے والے ۔دفعہ کرو اسے اور کسی ڈھنگ کی دوکان پہ چلو‘‘۔
’’اچھا میں لے کر آتی ہوں آپ گاڑی میں بیٹھیں رہیں اگر آپ ٹھیلے سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں ‘‘۔ بیگم نے ایک اور سُگھڑ پن کی بات کی۔
’’ہاں یہ ٹھیک ہے‘‘۔
تھوڑی ہی دیر میں بیگم ایک بے ڈھنگی سی، نیلے رنگ کی چپل اُٹھا لائی۔’’ ذرا پہن کر دیکھیں کہ ماپ ٹھیک ہے کہ نہیں‘‘۔
’’حد کرتی ہو۔ اتنی فضول جوتی۔نہ رنگ اچھا نہ سٹائل‘‘
’’بھئی آپ نے باتھ روم میں ہی استعمال کرنی ہے کونسی یونیورسٹی پہن کے جانا ہے‘‘
’’اچھا جلدی گاڑی میں بیٹھو۔ اب ٹھیک ہے جیسی بھی ہے‘‘۔
صاحبو کچھ دن تو بیگم کو کوستے رہے یہ کیابکواس چپل ہے۔ مگر رفتہ رفتہ اس کے عادی ہوگئے اور اس کی افادیت کے قائل بھی۔نہ تو وہ پھسلتی تھی اور نہ ہی پاؤں کو تکلیف دیتی تھی بلکہ کافی آرام دہ تھی۔مضبوط اتنی کہ کوئی تین چار سال گذر گئے مگر ہمیں اور چپل نہ لانی پڑی ۔ ہم اِس کے اس قدر عادی ہوگئے کہ باتھ روم کے علاوہ اسے اکثر گھر میں بھی پہننے لگے ۔کبھی کبھار اس چپل کو پہنے پہنے قریبی مارکیٹ سے بھی ہو آتے۔ اتنا عرصہ گذر نے کے باوجود نہ تو اس کی شکل خراب ہوئی اور نہ ہی گھِس کے پھسلن ذدہ ہوئی ۔
امریکہ ایک سال کیلئے گئے تو اُسی چپل کو ساتھ ہی لے گئے۔ پورا سال نہ صرف باتھ روم بلکہ گھر بھی اسے ہی استعمال کیا ۔ مجال ہے کہ اس کی کوالٹی اور آرام دہ ہونے میں کوئی فرق آیا ہو۔ بلکہ رفتہ رفتہ وہ تومیرے پاؤں کا حصہ بن گئی ۔سال بعد جب امریکہ سے واپس لوٹے تو بہت سارے سامان کے ساتھ اسے بھی ادھر ہی چھوڑ دیامگر آخری لمحے اسے ہینڈکیری میں رکھ لیا کہ دوران سفر وضو کیلئے کام آئے گی اور لاہور ائر پورٹ پر ہی چھوڑ جائیں گے۔گھر آئے تو بیگم نے باتھ روم کیلئے ایک نئی جوتی لے رکھی تھی۔ اسے چند دن ہی استعمال کیا تھا کہ ایک روز پھسل گئے۔ غصہ میں آکر اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک کر پھر وہی نیلی چپل نکال لی۔
صاحبو امریکہ سے واپسی پر بھی دوسال ہوگئے مگر اس نیلی چپل کا کچھ نہ بگڑا۔ مگر ہمارا دل بھر گیا آخر حد ہوتی ہے ہر چیز کی۔ہم نے سوچ لیا کہ اب تو اسے بدلنا چایئے۔ ہم نے اسے ایک دو دفعہ ٹوکری میں پھینکا مگر صفائی والی ماسی اسے پھر صاف کرکے باتھ روم کے پاس رکھ دیتی اسی دورا ن ہم نے ایک دو دفعہ مزید چپلیں لے کر توڑ دیں تو پھر اسے استعمال کرنا شروع کردیا ۔ایک دفعہ مالی کو دیا تو اُسے پوری نہ آئی۔ جمعدار کو دی تو اُسے رنگ نہ پسند آیا۔پھر استعمال شروع کر دی۔
پچھلے سال لاہور سسرال گئے تو واپسی پر جان بوجھ کر چپل کوبیڈ کے نیچے دھکیل آے ۔ تب اس سے جان چھٹی ۔ کچھ ماہ پہلے اسلام آباد سے بیگم کے بھائی آئے۔واپسی پر ایک شاپنگ بیگ بھی بیگم کو تھما دیا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی چپل لاہور بھول آئے تھے۔ میں نے فیصل آباد تو آنا تھا سو وہاں سے اسلام آباد لے گیا اور اب آپ کے حوالے۔چپل کو دھو دھا کر پھر سے زیر استعال لے آئے کہ نہ اس کے نمبر گھسے نہ ٹوٹی اور آرام دہ بھی ویسے کی ویسے۔سچی بات تو یہ ہے ہمیں اتنی عمدہ چپل پھر نہ ملی ۔ ہم بہانے سے جب بھی بازار جاتے ٹھیلوں کو بھی جھانک آتے مگر ندارد۔ ہم نے اب کسی اور چپل کے لئے سوچنا ہی ترک کردیا ہے۔
غالباً ہماری جوتی کوئی الگ ہی کوالٹی کی تھی جو پاکستان میں غلطی سے آگئی جِسے چین بنا سکتا ہے مگر دنیا کو نہیں دے رہا ۔بلکہ ہر چیز دنیا کی ڈیمانڈ کے مطابق بنا رہا ہے اور اُس قیمت پر بنا رہا ہے کہ کوئی اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔کوئی ملک مذہب کے پیچھے، کوئی اپنی طاقت کی دھاک بنانے کی جستجو میں اور کوئی کسی اور اجنڈے پر۔ رہ گے ہم جیسے ملک تو نہ تین میں نہ تیرہ میں، ترقی کی دوڑ میں پیچھے۔ چین چُپ چاپ سائنس اور ٹکنالوجی میں دنیا کو بہت پیچھے چھوڑ رہا ہے اور جلد ہی دنیا کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھ دے گا۔