شازیہ عندلیب
دوسراحصہ
تین دن بعد پھر رخشی کو وہی بوڑھا خوب بنا ٹھنا ایک ہم عمر اور خوش لباس عورت کے ساتھ نظر آیا۔بوڑھے نے ایک پارٹی ڈریس پہن رکھا تھا جبکہ اس کی ساتھی عورت جو غالباً اس کی بیوی تھی اس نے بھی دلکش لباس پہن رکھا تھا۔بوڑھے کے ہاتھ میں ایک گلدستہ اور اس کی ساتھی عورت کے ہاتھ میں ایک تحفہ کا پیکٹ تھا۔حسب معمول رخشی کو اس نے بڑی خوش اخلاقی سے ہائے کیا۔رخشی پوچھے بناء نہ رہ سکی کہ وہ آج اس قدرخوش کیوں دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔بوڑھے کا جواب سن کر رخشی حیران رہ گئی۔وہ کہہ رہا تھا کہ آج اس کے پاپا کی سالگرہ ہے۔آج وہ پچانوے برس کا ہو جائے گا۔یہ سالگرہ اوسلو کے بہت بڑے فائیو اسٹار ہوٹل میں منائی جا رہی تھی۔سب سے خوشی کی بات یہ تھی کہ اس سالگرہ میں شرکت کے لیے اسکا دادا خاص طور سے برگن سے آ رہا تھا۔آج وہ بہت خوش دکھائی دے رہا تھاکہنے لگا میرے پاپا نے بانوے سال کی عمر میں ہائی جمپ چیمپئن شپ جیتی تھی۔جبکہ مما ٹیبل ٹینس کی اسی سال سے ذیادہ عمر کے کھلاڑیوں کی ٹیم کی کھلاڑی ہے ۔اس نے بتایا کہ وہ بہت اچھی کھلاڑی ہے اور پچھلے سال وہ ٹیبل ٹینس کے مقابلوں میں دوسرے نمبر پہ رہی تھی۔اس کے علاوہ اسکی ماں سائیکلنگ اورتیراکی بھی بہت اچھی کر لیتی تھی۔جب وہ شخص اپنے والدین کی بات کر رہا تھا تو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی بچہ اپنے ماما پاپا کی تعریفیں کر رہا ہو۔اس کی بیوی شاشٹی تیکھے نقوش اور سبز آنکھوں والی ایک انتہائی دلکش نارویجن عورت تھی۔اس نے اپنے شوہر کی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا ہاں اس کی ماں ٹیبل ٹینس کے کھیل میں پہلے نمبر پہ آ سکتی تھی اگر اس کے بازو میں دردنہ ہوتا۔سلیٹی سوٹ میں ملبوس آندریاس اور آسمانی فراک والی شاشٹی اپنی بس میں بیٹھ کر چلے گئے ۔
ان کے جانے کے بعد رخشی تو حیرتوں کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئی۔وہ سوچنے لگی کہ یہ نارویجن قوم بھی کیسے زندگی گزارتی ہے کہ زندگی کے ان دنوں میں جب ہمارے بزرگ زندگی سے بیزار بیمار بیٹھے ہوتے ہیں۔یہ لوگ کس طرح تندرست چاک و چوبند اور متحرک رہتے ہیں کہ جوانوں کو بھی مات دے دیں۔بس اس نے دل میں تہیہ کر لیا کہ وہ بھی اپنی امی کے ساتھ ٹیبل ٹینس کھیلے گی اور انہیں سائیکل لے کے دے گی۔چاہے تین پہیوں والی ہی لے کے دینی پڑے۔اچانک اسے ایک دوکان پہ لکھا نوٹس یاد آ گیا۔ا س پہ لکھا تھا کہ
ادھار قطعی بند ہے۔صرف اسّی سال کے بچے اپنے والدین کے ساتھ آ کرادھار لے سکتے ہیں۔۔۔۔
اس نے سوچا کیوں نہ اگلی مرتبہ اس جوڑے کی دعوت اس ریستوران میں کی جائے اور بل بھی ادار کیا جائے۔۔یہ سوچ کر اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی۔ابھی اس کی بس کے آنے میں تین منٹ باقی تھے۔اس نے اپنے آس پاس ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالنا چاہی تو نگاہیں ساتھ والے بینچ پر بیٹھے شخص کو دیکھ کر ٹھٹھک گئیں۔وہی بوڑھا پھر۔۔ پھولوں کا گلدستہ ہاتھ میں لیے بنچ پہ بیٹھا تھا۔۔۔۔رخشی نے حیرت سے پھیلی آنکھیں ایک دو بار جھپکیں کہ مبادا کوئی اور تو نہیں مگر۔۔۔ نہیں وہ تو سو فیصد وہی بوڑہا تھا وہی لباس وہی ٹوپی وہی گلدستہ سب کچھ تو وہی تھا جبکہ اسے گئے ہوئے پورے دس منٹ ہو چکے تھے۔تو پھر یہ یہاں کیسے ؟؟؟دماغ میں ایک ہلچل سی مچی تھی۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی رخشی کی بس آ گئی۔وہ بس میں بیٹھ کر کھڑکی سے تاحد نظر اسے دیکھتی رہی۔اسے باوجود کوشش کے آندریاس میں اور اس میں کوئی فرق نظر نہ آیا۔اس نے اسے آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔چند منٹ پہلے بس میں سوار ہونے والا بوڑھا دوبارہ کیسے اور کیوں آ گیا تھا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کون تھا؟ وہاں کیا کررہاتھا کیوں آ یا تھا؟ایسے ہی سوالات اسے پریشان کر رہے تھے۔کہ ایک خیال کوندے کی طرح ذہن میں آیا کہ وہ جس محلے کا نام بتا رہا تھا اپنے گھر کا وہاں تو ایک ویران اور خالی گھر بھی ہے جو روحوں کا مسکن ہونے کی وجہ سے خالی پڑا تھا۔تو پھر ۔۔۔ اس کے بدن میں ایک ٹھنڈی خوف کی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔بس اس سے آگے اس میں سوچنے کی تاب نہ تھی۔۔۔۔۔
جاری ہے