چا چا زلفی میں نے MBAپاس کرلیا ہے، تیری دعاؤں سے ۔
فاروق شامی نے بڑے فخر سے زلفی مچھلی والے کو بتایا ۔ زلفی سمیت دائیں بائیں کھڑے گاہک اور دوکاندار بھی متوجہ تھے۔ سب حاجی بوٹے پر فخر کررہے تھے کہ اس کی ساری اولاد لائق اور فرمابردار نکلی ۔
چاچا زلفی نے مرعوب ہوتے ہوئے پوچھا ۔ ’’باؤ فارو ق یہ کتنی جماعتیں ہوتی ہیں ؟‘‘
’’چا چا یہ جماعتیں تو سولہ ہی ہوتی ہیں مگر اسکی قدر اس سے زیادہ ہوتی ہے ‘‘
’’پُتر اس کا مطلب ہے کہ تم نے ’’بی آ‘‘ کر لیا ہے‘‘۔ ایک گاہک نے اپنی علمیت جھاڑی
’’نہیں چا چا جی ۔ بی اے کے بعد ایم اے ہو تا ہے۔ اور MBA اس سے بھی آگے کی جماعت ہے‘‘۔ شامی نے اپنا مختصر سا سینہ پُھلاتے ہوئے کہا
’’ماشاء اللہ تو پھر اب تم پٹواری یا تھانیدار تو لگ جاؤ گے ناں؟‘‘دِتے نے معصومیت سے پوچھا
’’نہیں نہیں یہ وہ والی پڑھائی نہیں ہے‘‘۔ فاروق شامی نے زِچ ہو کر کہا
’’تو کیا پھر تم ڈاکٹر بن گئے ہو ۔ اچھا ہے ہمارے بھی جاننے والوں میں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا‘‘ ۔ چاچا زلفی نے بتیسی نکالتے ہوئے کہا
’’نہیں میں نے ایسی پڑھائی بھی نہیں کی‘‘ ۔شامی نے قدرے مایوسی سے بتایا
’’تو پھر کیا جج وکیل یا مجسٹریٹ بن گئے ہو؟‘‘ اللہ رکھے سبزی والے نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
’’افوہ ۔ نہیں بھئی آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آئے گی‘‘ ۔شامی روہانسا ہو گیا
’’میں نے یہ سیکھا ہے کہ کاروبار کیسے بہتر انداز میں کرتے ہیں‘‘ ۔شامی نے قدرے آسان انداز میں سمجھایا
’’لو جی ۔ اب حاجی بوٹے کا بیٹا سولہ پڑھ کہ ہٹی کھولے گا‘‘ ۔زلفی نے مایوسی سے کہا
’’ منڈا شیخ بن گیا ہے۔اگر یہی کام کرنا تھا تو ماں باپ کا اتنا پیسہ اورو قت کیوں ضائع کیا؟۔ دِتے نے تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا
’’نہیں چا چا میں ہٹی نہیں کھولوں گا۔ میں نے تو یہ علم سیکھا ہے کہ کاروبار کو وسیع اور منافع بخش کیسے کیا جا سکتا ہے اور ایک چھوٹے کاروبار کو بڑا اور منافع بخش کیسے بنایا جا سکتا ہے‘‘۔فاروق نے زِچ ہوکے سادہ زبان میں ان سادہ لوح دوکانداروں کو سمجھانے کی کوشش کی ۔
چا چا زلفی اب متاثر ہو رہا تھا۔ اُس نے فاروق کو پکڑ کر مچھلی والے تخت پر بٹھا دیا اور لگا اپنا دکھڑا بیان کرنے
’’دیکھ پتر میں 20برسوں میں اس بازار میں مچھلی بیچ رہا ہوں۔ محنت بھی کرتا ہوں اور ایمانداری پر کسی کو شک بھی نہیں ۔ مگر 20برس سے وہیں کا وہیں ہوں ۔ گھر پوری نہیں پڑتی۔بڑی مشکل سے گزارہ ہوتا ہے۔ پہلے بچے چھوٹے تھے توپھر بھی گزر بسر ہو جاتی تھی مگر اب خاندان بڑا ہو گیا ہے۔ بچیاں جوان ہیں ،کتنے مسائل ہیں ۔ تیر ے علم کا کیا فائدہ اگر میرا کاروبار بہتر نہ ہو‘‘
فاروق شامی کے پسینے چھوٹ گئے ۔ ہلکا کے کہنے لگا
’’چا چا ان چھوٹی چھوٹی دوکانداریوں کامیں کیا کروں ۔ہم تو بڑے بڑے اداروں اور کمپنیوں کو مشورے دیتے ہیں ‘‘
چا چا زلفی نے فاروق کا ہاتھ نہ چھوڑا اور مسلسل ضد جاری رکھی کہ مشورہ دے تا کہ کاروبار بہتر کر سکے۔آخر فاروق کو ہار ماننا پڑی اور کچھ سوچ بچار کے بعد بولا’’ چا چا دوکاندار ی بہتر کرنے کیلئے آپ کو کچھ فوری اقدام کرنا پڑیں گے تاکہ گاہک متوجہ ہو اور آپ کی بکری زیادہ ہو۔ اس گندی مندی دوکان میں لوگ صرف مجبوری کے عالم میں ہی آتے ہیں ۔ کئی لوگ مچھلی کھانا چاہتے ہیں مگر آپ کی دوکان کی گندگی اور حفظانِ صحت کے عدم اصولوں کی وجہ سے گاہک اِدھر کا رخ نہیں کرتا ۔ آپ کچھ کام فوری طور پر کریں ۔
1۔ دوکان کے فرش چھت اور دیواریں ٹائل لگوایں اور رنگ و روغن کریں ۔ خود صاف کپڑے اور اپرن پہنیں
2۔ شیشے کے شوکیس بنوائیں ۔ جن میں مختلف قسم کی مچھلی خُوشنما انداز میں سجائی ہو۔
3۔ دوکان میں جالی لگوائیں تاکہ مچھر مکھی کا گزر نہ ہو
4۔ روزانہ دوکان کو اچھی طرح دھوئیں ۔ اور کیڑے مکوڑ ے مکھی مچھر مارنے والے کیمیکل کا سپرے کریں ۔
5۔ دوکان کے باہر ایک خوبصورت سا بورڈ لکھیں
“یہاں تازہ مچھلی بکتی ہیں ”
6۔ کاروبار کے متعلق سوچیں اور اچھے مشوروں پر غور کریں ۔
7۔ دوکان میں A.C لگوائیں اور فرج رکھیں ۔ تاکہ مچھلی خراب نہ ہو۔
چا چا آپ میرے مشوروں پر عمل تو کریں اور پھر دیکھیں کہ آپ کس قدر ترقی کرتے ہیں ‘‘
زلفی اس پڑھے لکھے شیخ کے مشوروں سے نہائیت مر غوب نظر آتا تھا۔ سارا دن سوچتا رہا مگر رفتہ رفتہ اس کی مایوسی بڑھتی گئی کیونکہ مشورے تو اچھے تھے مگر ان پر عملی جامہ پہنانے کیلئے سرمایہ چاہیے تھا ۔ “لاہور جانے کا مشور ہ تو سب دیتے ہیں مگر کرایہ کوئی نہیں دیتا”
رات گئے زلفی نے فیصلہ کیا کہ شامی کی تجاویز میں سے ایک پر عمل درامد ہو سکتا ہے۔اور وہ ہے دوکان کا نام کا بورڈ۔ جب کاروبار کچھ بہتر ہو جائے گا تو آہستہ آہستہ دوسرے مشوروں پر بھی عمل ہو جائے گا۔
ساری رات وہ جاگتا ہی رہا ۔صبح فیصلہ کیا کہ بجائے بورڈ کے پینٹر سے سفیدی سے ہی دوکان کانام لکھوا لے ۔ سستا پڑیگا اور اچھا بھی لگے گا۔ اگلی صبح صاف کپڑے پہنے اور دوکان کو اچھی طرح دھویا۔ پھر چھید ے پینٹر سے دوکان کے باہر جلی حروف میں لکھوایا گیا
“یہاں تازہ مچھلی بکتی ہے ”
زلفی آج نہائیت خوش تھا کہ اس نے ایک اعلی تعلیم یافتہ ماہرِ کا روبار کے مشوروں پر عمل شروع کر دیا ہے۔ اب کاروبار بہتر ہو جائے گا۔ اور وہ ایسی کئی دوکانیں کھولے گا ۔ وہ بار بار دوکان کے باہر ہر زاویہ سے دیکھ رہا تھا کہ اب دوکان صرف نام لکھنے سے ہی کتنی اچھی اور واضح نظر آرہی تھی۔ جب کاروبار بہتر ہوجائے گا تو فاروق شامی کے دوسرے مشوروں پر بھی عمل کروں گا۔
صبح ہی صبح دِتا آن ٹپکا ۔
’’او ئے زلفی آج تو بڑی شان ہے بھئی ۔ بڑا نام لکھا ہے۔ مگر اس میں ایک غلطی ہے۔ وہ فوراً ٹھیک کرواؤ ورنہ لوگ ہنسیں گے‘‘
’’ہائیں وہ کیا ہے؟ چاچا زلفی نے گھبرا کے پوچھا
’’ارے جاہل جہاں مچھلی بیچ رہے ہو ، وہیں تو دوکان ہے اور کیا کہیں اور بِک رہی ہے۔” یہا ں “فالتو میں لکھا ہے
” تازہ مچھلی بکتی ہے” یہ ٹھیک ہے۔
اور فوراََ “یہاں ” مٹاؤ
زلفی کو یاد آیا کہ باؤ فارو ق شامی نے کہا تھا کہ اچھا مشورہ ملے تو فوراً عمل کرو۔
زلفی نے پینٹر کو بلوایا اور “یہاں ” مٹا دیا گیا
اب دوکان کا نام رہ گیا
“تازہ مچھلی بکتی ہے”۔ زُلفی نے ممنونیت سے دِتے کو دیکھا اور لگا سُہانے خواب دیکھنے کہ اب اچھے دِن آنے والے ہیں۔
تھوڑی دیر میں حاجی ذوالفقار بھی مچھلی خریدنے آگئے اور لگے فرمانے زلفی اچھا کیا تم نے دوکان کانام لکھوا لیا ۔ مگر ذرا سوچ کے لکھوانا تھا ۔ کسی گدھے نے مشورہ دیا لگتا ہے۔
“حاجی صاحب میں تو ان پڑھ ہوں کیا غلطی ہے اس میں؟” زلفی پھر پریشان ہو گیا
“ارے بھائی سادہ سی بات ہے کہ جو بازار میں بیٹھا ہے وہ سامان بیچنے کیلئے ہی توبیٹھا ہے۔ دکھانے کیلئے نہیں ۔ تو ظاہر ہے تم بازار میں مچھلی لے کر بیٹھے ہو تو بیچو گے ہی ناں ؟
تو “بکتی ہے “کا کیا مطلب ۔ مٹا دو اسے
زلفی بیچارے کو بڑی شرمندگی ہوئی کہ واقعی کتنی بڑی بے وقوفی کی اس نے، ظاہر ہے بازار میں ہر کوئی سودا بیچنے کیلئے ہی تو بیٹھتا ہے۔
پھرچھیدے پینٹر کو بلوایا گیا اور” بکتی ہے”مٹا دیا ۔ اب دوکان پر صرف لِکھا رہ کیا تھا۔
“تازہ مچھلی ”
زلفی مطمئن ہو گیا کہ اب کوئی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی ۔
“تازہ مچھلی ”
دوپہر کوسیٹھ رمضان کا بازار سے گزر ہوا تو “تازہ مچھلی “لِکھا دیکھ کر رُک گیا۔
“واہ بھئی زلفی آج تو بڑی شان ہے۔ کپڑے بھی صاف اور دوکان کانام بھی لکھوا لیا ۔ چلو تمہیں بھی خیال آیا کہ کچھ تو تبدیل ہو۔ لیکن بھئی ایک بات ہے۔ کہ تم 20سال سے ادھر مچھلی بیچ رہے ہو تمہاری ایمانداری پر سب کو اعتماد ہے۔ لہذا “تازہ “لکھنا گویا تمہارے ایمان پر شک کرنا ہے۔ یہ تو دعوت دینے والی بات ہے کہ آج مچھلی تازہ ہے ورنہ اکثر باسی ہوتی ہے۔ ناں بھئی ہم سے یہ برداشت نہ ہوگا کہ تمہاری ایمانداری پہ کوئی اُنگلی اُٹھے ۔ بس فوراً یہ “تازہ “کو مٹا ڈالو ۔ “مچھلی” ٹھیک ہے۔
زلفی پھر پریشان تھا اور اسے سب کچھ قبول تھا مگر اپنی ایمانداری پر دھبہ یا شک اسے گوارہ نہ تھا اور سیٹھ رمضان اس کے پرانے گاہک اور خیر خواہ تھے ۔ وہ اس کے بھلے کی بات کر رہے ہونگے ۔ سو اُنہیں ناراض نہیں کرنا چاہیے
پینٹر کو پھر بلوایاگیا اور “تازہ “کو بھی مٹا دیا گیا ۔ اب دوکان کے ماتھے پر صرف یہ لکھا رہ گیا
“مچھلی ”
اگرچہ زلفی بے سکون ہو چکا تھا مگر یہ بھی اطمینان تھا کہ سیانے لوگوں کا مشورہ بھی اس نے مانا تھا ۔ اب مزید تصیح کی گنجائش باقی رہ ہی نہیں گئی تھی ۔ ویسے بھی
“مچھلی ”
ایک طرح سے دیکھا جائے تو مچھلی لکھا ہی کافی ہے۔ زلفی قدرے مطمئن ہوکر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ سکول سے چھٹی ہوگی ۔ بچے بھاگتے شور مچاتے گھروں کی جانب روا ں دواں تھے۔ کچھ شرارتی بچے زلفی کی دوکان پر رک گئے اور لگے تبصرہ کرنے۔
“لو جی دوکان کا نام دیکھو “مچھلی ”
بچے قہقہے لگارہے تھے۔
یہ بھی لکھنے کی کیا ضرورت تھی بازار میں داخل ہوتے ہی تو بدبو کے پھبکے ناک میں گھس جاتے ہیں اور پتا چل جاتا ہے کہ ادھر مچھلی کی دوکان ہے۔بلکہ زلفی جہاں سے گزرے پتا چل جاتا ہے کہ مچھلی وا لا ہے۔
ایک گاہک بھی مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’ہاں بھئی دوکان کاکوئی مناسب نام ہوتا ہے ناں کہ صرف “مچھلی “۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے سبزی والا لکھوا لے ’’آلو‘‘، مٹھائی والی دوکان پہ لکھا ہو ’’برفی‘‘۔ ارے کچھ تو ساتھ لکھا ہو نا چاہئے، جیسے
’’فریش فِش شاپ‘‘ یا ’’چاچا زلفی مچھلی والا‘‘
بچوں کے قہقے بلند ہورہے تھے
ایک بچے نے ’’چاچا مچھلی‘‘ کا نعرہ لگایا تو گویا سب بچوں کو جان کی پڑگئی اور
’’چاچا مچھلی‘‘ ’’چاچا مچھلی‘‘ کے نعرے ہر سُو گونجنے لگے۔ راہگیر اور آس پاس کے دوکاندار بھی بچوں کے نعروں پہ قہقہے لگانے لگے۔
چا چا زلفی غصے سے گالیاں بکتا ہوا بچوں کے پیچھے مارنے کو بھاگا ۔ چند قدم ہی گیا تھا کہ اُسے چھیدے پینٹر کی دوکان نظر آئی ۔ پینٹر کی دوکان سے زلفی نے خود ہی برش اٹھایا ۔وہ شامی کو بلند آواز سے گالیاں اور بدُعایں دے رہا تھا۔
’’او شامی تیرا بیڑا غرق ہو۔ اللہ کرے تو حکومت کا وزیر، مشیرلگو۔ اُدھر تیرے جیسے سیانے ہی ملک کا ستیا ناس مار رہے ہیں۔ اللہ کرے تم دورے پر جاؤ اور پریس کانفریس کرو اور لوگ تمہیں سوالوں کی بجائے جوتے ماریں‘‘
اور فاروق شامی کی شان میں گستاخیاں کرتا زلفی خود ہی برش سے “مچھلی “کو مٹانے لگا