نکول سے عروج اور اب لیزلی
از
عابدہ رحمانی
نکول نے میرے دکھتے ہوئے شانے پر گرم گرم تولئے کو سینکائی کے لئے رکھا- ٹائمر لگایا ،” تم آرام سے ہو اگر زیاد گرم لگے تو مجھے آواز دینا ۔۔میں ساتھ والے کمرے میں ہوں -” مجھے گرمائش سے کافی سکون مل رہا تھا میری آنکھیں بند ہونے لگیں ۔۔دس منٹ گزرے اور گھڑی نے آلارم بجایا ۔بیچ میں ایک دو مرتبہ آکر اسنے پوچھ لیا تھا کہ کہیں گرمائش زیاد تو نہیں ہے ۔۔ دبیز پردوں سے ان کیوبیکلز کو تقسیم کیا ہواتھا ۔۔ نکول اور اسکی ساتھی فزیو تھیراپسٹ مختلف طریقوں سے میرے جیسے مریضوں کے درد اور تکلیف کو دور کرنیکی کوشش کر رہے تھے۔۔
تقریباً سب کی سب خواتین تھیں غالبا خواتین میں تیمارداری کا جذبہ زیاہ ہوتا ہے۔۔
نکول کی توجہ اور محبت سے میری أٓدھی تکلیف دور ہو جاتی اور اسکے پاس جانے کا بے چینی سے انتظار ہوتا۔۔اسکے نرم ہاتھوں کا لمس مجھے أسودگی بخشتا ” نکول تمہارے ہاتھ بہت نرم ہیں ” اور وہ تھینکس تھینکس کہتے جاتی۔۔ اسکی بیمار ماں اپنی موذی بیماری سے جنگ میں مصروف تھی۔۔ وہ مجھے بتاتی ،” وہ بہت بہادر ہے جنگجو ہے ۔۔ ہار ماننے والی نہیں ” کاش ایسا ہی ہو۔۔
عروج اس دینا کے دوسرے خطے کی باسی تھی جب میں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا تو عبایا ، حجاب لپیٹے اونچی ایڑی کی جوتی پہنے ہوئے ، مجھے پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی کافی کمی محسوس ہوئی ۔۔ یہ میری تھراپی کیا کریگی ۔۔ بار بار پھسلتا ہوا اسکارف، میں نے بس اتنا ہی کہا ” ہیل میں تو تھک جاتی ہونگی ، أٓرامدہ جوتے پہننے چاہیئں ،” لیکن اپنے لٹکے پٹکے انداز کے ساتھ وہ بھی وہی طریقے أٓزماتی رہی جس سے مجھےأ ٓرام أئےاور میری تکلیف کم ہو۔۔ تولیوں میں لپیٹی گرم ٹکوریں پھر الٹرا سانک مساج۔۔” أنٹی جی ۳ بجے یہاں سے فارغ ہوتی ہوں تو پھر بیوٹی پارلر کا کام کرتی ہوں ۔۔ أپ بھی گھر میں پوچھ لیں ۔۔ ابا بہت بیمار ہیں کل رات سارے کپڑے اور بستر گندا کر دیا ۔ صبح سویرے سب صاف کرکے کپڑے دھو کرأ ٓرہی ہوں۔۔بھابھی اور بھائی کو تو جیسے پرواہ ہی نہیں اگر میں نہ کروں تو کون کریگا ؟” وہ اپنے فالج زدہ باپ کے لئے بہت پریشان تھی ۔۔” أنٹی جی دیکھیں میرا یونیفارم بالکل صاف ہے اسنے عبایا اوپر کرکے مجھے دکھایا ۔۔سارے مرد ہیں نا اور مجھے بار بار باہر جانا پڑتا ہے ۔۔ عبایا بھی ہمیشہ صاف پہنتی ہوں “۔۔ یہ چھوٹی سی جگہ بھری ہوتی، عروج ، عروج کی صدائیں اور وہ اسی حلئے میں بھاگ بھاگ کر سب کو توجہ دیتی ۔۔سب کے درد کا مداوا بنتی۔۔ اپنی تمام تر پریشانیوں کے ساتھ اسکا رویہ سب کے ساتھ پیار بھرا ہوتا ۔۔۔
اور اب یہ لیزلی ہے ترقی یافتہ ملک کی ترقی یافتہ عورت یہ اسکی اپنی تھراپی کی جگہ ہے ۔۔ اسنے مجھے ہاتھوں ھاتھ لیا ،نئی تکنیکی تشخیص ،ورزشیں ، وہی گرم ٹکور اور الٹرا سانک مساج پھر اسکے نرم ہاتھوں سے کی ہوئی مالش ، محبت توجہ اور دلچسپی سے کراتی ہوئی مختلف ورزشیں،” میں پوری کوشش کرونگی کہ تمہاری تکلیف دور نہیں تو کم ہوجائے ، تمہارے ریشے اور پٹھے مضبوط ہو جائیں ۔” خوش باش عورت دو بیٹوں کی ماں ، شوہر انجینئر۔پرأ ٓسائش زندگی۔ اسکو وہ دکھ نہیں جو نکول اور عروج کو اپنے والدین کی وجہ سے تھے ۔۔
چھ ہفتوں میں میرا اور اسکا خوب تعلق بنا ۔أدھا وقت تو ہمارا گپ شپ کرتے ہوئے گزرتا۔ دنیا بھر کے قصے کہانیاں۔۔اتنے دنوں میں اسے معلوم ہو گیا تھا ، پاکستان ،بھارت تعلقات کیا ہیں ۔رمضان ،عید اور دیوالی میں کیا فرق ہے ؟ اور ایک روز میرے فون پر بجنے والا مسلم کال آف پرئیرزہے( آذان)
کوئی گانا نہیں ۔ اور یہ کہ میں روشن خیال مثبت سوچ رکھنے والی مسلمان ہوں اور داعش کی بہیمانہ کارروائیوں پر لعنت بھیجتی ہوں ۔
اور أٓج میری انشورنس کمپنی کا بل أیا ہے جو مجھے دینا ہے ۵۰۰ ڈالر میں یہ سودا گھاٹے کا نہیں تھا۔