Selected by
Tariq Shah
اس عالم رنگ وبو میں خالق کائنات نے انسان کو اپنا خلیفہ اور نائب بنایا اور اس کے ذمے یہ کام لگا کہ وہ اللہ اور صرف اللہ کی بندگی اختیار کرے۔ ساری مخلوق اس کے لیے مسخر کی گئی اور اسے اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا پابند بنایا گیا۔ انسان کا مقصدِ حیات رضاے الٰہی اور فلاح اخروی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ انسان اپنے اس مقصد سے عموماً دور بھاگتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ ال
شَّکُوْرُ o’’اورمیرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں‘‘ (سباء۳۴:۱۳)۔ جو مخلص اہلِ ایمان اللہ کی رضا اور اس کے دین کے غلبے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، ان کے سامنے مشکلات، آزمایش وابتلا اور کٹھن مراحل کا آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ اس قافلے کو اپنے عظیم مقاصد کے حصول کی خاطر جان کی بازی بھی لگانا پڑتی ہے اور قیدوبند، دارورسن کے علاوہ بھوک، خوف اور نقصانِ اموال کی منزلوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کمزور ہے، اسے حوصلہ پانے کے لیے کوئی سہارا درکار ہوتا ہے۔ اللہ کی ذات ہی اصل سہارا ہے اور نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی ایمان افروز زندگیاں اس کو استقامت وعزیمت کی راہ دکھلاتی ہیں۔ آج امت پر انتہائی کڑا وقت آن پڑا ہے۔ ان پرآشوب حالات میں سیرتِ رسولؐ کا مطالعہ محض روایتی انداز میں نہیں بلکہ اس کی حقیقی روح کے ساتھ ضروری ہے۔
دنیا میں ہر عظیم مقصدتک پہنچنا، عظیم قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے ہی میں ممکن ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے جو فریضہ سونپا گیا تھا وہ بہت مشکل تھا۔ اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنا اور باطل کے ہر جھنڈے کو سرنگو ں کردینا، اللہ کی شریعت کا نفاذ اور ادیانِ باطلہ کو شکست سے دوچار کردینا بعثتِ رسولؐ کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔ اس مقصد کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن پاک میں تین مرتبہ ایک ہی انداز اور یکساں الفاظ میں اسے دہرایا گیا ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o( التوبۃ۹:۳۳) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔(سورۂ فتح، آیت۲۸ اور سورۂ صف، آیت۹ بھی اسی موضوع پر ہیں)۔
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کے مطابق مکہ اور اس کے گرد ونواح میں دعوت دین کا کام شروع کیا تو جاہلی معاشرے میں ہل چل مچ گئی، جیسے آپ نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہو۔ آپؐ کی مخالفت میں قریش کے تمام سردار اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور تو اور آپؐ کا حقیقی چچا ابولہب مخالفت میں ان سب سے آگے آگے تھا۔ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے کا ہرحربہ اختیار کرتا۔ آنحضوؐر کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے اپنے مکان کی چھت سے آنحضوؐر کے گھر میں غلاظت پھینکنے سے بھی باز نہ آتا۔کبھی کبھار تو ہنڈیا پک رہی ہوتی تو بدبخت اوپر سے غلاظت پھینک دیتا۔ ابولہب کے علاوہ آپ کے دیگر پڑوسی بھی اسی قماش کے لوگ تھے، مثلاً عقبہ بن ابی معیط، حَکم بن عاص اور عدی بن حمراء۔ ان سب کی حرکات بھی ابولہب کی طرح ہی کی تھیں۔ یہ کس قدر اذیت ناک بات تھی اس کا اندازہ ہر شخص کرسکتا ہے، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کبھی ہمت ہاری اورنہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات کہی جو آپؐ کے شایان شان نہ ہو۔ آپؐ اتنا فرماتے:’’ اے بنو عبدمناف تم کیسے ہمسایے ہو، کیا ہمسایگی اسی کو کہتے ہیں؟‘‘ ۔ (تفہیم القرآن،ج۶،دیباچہ سورۂ لہب، ص۱۱۱۔ بحوالہ بیہقی، ابن ابی حاتم، ابن جریر، ابن عساکر، ابن ہشام)
اس سارے عرصے اور مشکل منزلوں میں آپؐ کی سرپرستی کا حق آپؐ کے چچا جنابِ ابوطالب نے خوب ادا کیا۔ ہرچند کہ انھوں نے اسلام تو قبول نہ کیا،مگر اپنے بھتیجے کے ساتھ زندگی کے آخری لمحے تک ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے رہے۔ شعب ابی طالب میں بھی انھوں نے آپؐ کا ساتھ دیا، جہاں تین سال اہلِ ایمان اور بنوہاشم کو (ماسواے ابولہب اور اس کے اہل وعیال کے) مقید رکھا گیا۔ اس دور کی تلخ یادیں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہ بھولیں، حتیٰ کہ فتح مکہ کے وقت بھی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اس گھاٹی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ اے جابر! تمھیں معلوم ہے کہ یہ کون سی جگہ ہے ؟ جب انھوں نے لاعلمی ظاہر کی تو آپؐ نے فرمایا : ’’یہ شعب ابی طالب ہے، جہاں ہم لوگوں کو تین سال تک مقید رکھا گیا۔ ہمارے بچے بھوک سے بلبلاتے رہے، ماؤں کی چھاتیوں میں دودھ تک خشک ہوگئے تھے اور ہم لوگ درختوں کے پتے اور چھال کھانے پر مجبور کردیے گئے تھے‘‘۔ (البدایۃ والنہایۃ، المجلد الاول، ص۵۰۷)
ان سخت آزمایشوں میں بھی آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ آپؐ نہ صرف خود ڈٹے رہے بلکہ تمام اہلِ ایمان کو بھی حوصلہ دیتے رہے۔ اس سب کچھ کے ساتھ وہ واقعہ بھی اپنی جگہ بڑا ایمان افروز ہے، جب سردارانِ قریش نے ایک قومی وفد بنا کر آپؐ کے چچا ابوطالب کے پاس بھیجا اور کہا کہ تمھارے بھتیجے نے گھر گھر میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس کام کو چھوڑ دے اور اس کے بدلے میں ہم اس کے ہر مطالبے کو پورا کردیں گے۔ اس پر جناب ابوطالب نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور سردارانِ قریش کی پیش کش آپؐ کی خدمت میں رکھی۔ آپؐ نے اس کے جواب میں فرمایا: اُرِیْدُ مِنْھُمْ کَلِمَۃً وَاحِدَۃً یَقُوْلُوْنَھَا تَدِیْنُ لَھُمْ بِھَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّی اِلَیْھِمْ بِھَا الْعَجَمُ الْجِزْیَۃَ ،’’چچا جان! میں تو ان کے سامنے ایک ایسا کلمہ پیش کرتا ہوں کہ اسے تسلیم کرلیں تو سارے عرب ان کے مطیعِ فرمان ہوجائیں اور پورا عجم ان کو جزیہ دینے لگے‘‘۔ جب آپؐ نے ان کے سامنے کلمۂ طیبہ رکھا تو سب نے انکار کردیا۔ پھر آپؐ نے اپنے چچاسے کہا: ’’چچا جان ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند لاکر رکھ دیں اور مجھ سے کہیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تو میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا۔ یا تو اللہ اس دین کو غالب کردے گا یا میں اس راستے میں اپنی جان قربان کردوں گا‘‘(سیرت ابن ہشام، ج۲،ص۱۰۱۔ البدایۃ والنہایۃ ، المجلدالاول، ص۴۸۴۔۴۸۵)۔دیگر کئی مواقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکل ترین حالات میں بارہا یہ اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو ضرور غالب کرے گا۔ حضرت مقداد بن اسودؓ کی روایت کے مطابق آپؐ نے فرمایا: ’’ کرۂ ارض پر کوئی پکا اور کچا گھر گھروندہ، کوئی چمڑے اور اون کا خیمہ ایسا نہیں ہوگا جس میں یہ دین داخل نہ ہو۔عزت والے عزت کے ساتھ اس میں داخل ہوں گے اور انکار کرنے والوں کو بھی آخر ذلت کے ساتھ اس میں آنا پڑے گا‘‘۔ (مسنداحمد، ج۶،ص۴)
حضرت خدیجہؓ اور جناب ابوطالب ۱۰نبوی میں وفات پاگئے۔ اس سال کو عام الحزن کہا جاتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں شخصیات سے بے پناہ محبت تھی اور دونوں نے آپؐ کے مشن میں آپؐ کا ساتھ نبھانے کا حق بھی بطریق احسن ادا کیا۔ غم کے باوجود آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمت ہار کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ مکہ سے ذرا فاصلے پر عرب کے دوسرے بڑے شہر طائف کا دعوتی سفر اختیار کیا۔ طائف میں آپؐ کی دعوت ووعظ کو سن کر وہاں کے ظالم لوگوں نے آپؐ پر ہرجانب سے پتھر برسانا شروع کردیے۔ حضرت زید بن حارثہؓ جو رفیق سفر تھے، آپؐ کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر شہر سے باہر لائے۔ آپؐ کو بری طرح زخمی کیا گیا تھا جس سے آپؐ بے ہوش بھی ہوگئے تھے۔ حضرت زید بن حارثہؓ نے چشمے کے پانی سے آپؐ پر چھینٹے ڈالے تو آپؐ ہوش میں آئے۔ وادیِ نخلہ کی وہ رات بڑی یادگار تھی جب اچانک آپؐ کے پاس حضرت جبریل ؑ اور پہاڑوں کا نگران فرشتہ حاضر ہوئے اور آپ کو سلام عرض کرنے کے بعد اجازت چاہی کہ اہلِ طائف کو اس ظلم وسفاکی کی پاداش میں دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے، مگر آپ نے فرمایا: ’’نہیں ہرگز نہیں۔ میں ان لوگوں کی تباہی کے لیے کیوں دعا کروں اگر یہ لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے تو کیا ہوا؟ امید ہے کہ ان کی آیندہ نسلیں ضرور ایک اللہ پر ایمان لے آئیں گی‘‘۔ (تاریخ طبری،ج۲، ص۳۴۵)
اس رات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے جو دعا مانگی وہ بھی بہت عظیم ہے: ’’الٰہی میں اپنی کمزوری، بے سروسامانی اور لوگوں کی تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں۔ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، درماندہ عاجزوں کا مالک تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے۔ مجھے کس کے سپرد کیا جاتا ہے، کیا بیگانہ ترش رُوکے یا اس دشمن کے جو میرے معاملات پر قابو رکھتا ہے، لیکن مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے اس کی کچھ پروا نہیں، کیونکہ تیری عافیت میرے لیے زیادہ وسیع ہے، میں تیری ذات کے نور کی پناہ چاہتا ہوں، جس سے سب تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں اور دنیا ودین کے کام اس سے ٹھیک ہوجاتے ہیں، میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر اترے یا تیری نارضامندی مجھ پر وارد ہو۔ مجھے تیری ہی رضامندی اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے یا بدی سے بچنے کی طاقت، مجھے تیری ہی طرف سے ملتی ہے۔ (مسلم، عن عائشہؓ، کتاب الجہاد والسیر،حدیث۱۷۹۵، رحمۃ للعالمینؐ،ج۱،ص۷۴، از قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری، مطبوعہ ادارہ، معارف اسلامی،لاہور)
نبوت کے تیرھویں سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکلنے پر مجبورکردیا گیا۔ ہجرت کی رات آپؐ نے مکہ کی طرف منہ کرکے یہ کہا تھا :’’ اے ارض مکہ! تو اللہ کی بہترین زمین ہے۔ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں، تیرے اندر اللہ کا گھر ہے، میں تجھے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا، مگر تیرے رہنے والوں نے مجھ پر زمین تنگ کردی ہے ‘‘ (البدایۃ والنہایۃ ، المجلدالاول، ص۵۷۸)۔ ہجرت کا سفر شروع ہوا تو قدم قدم پر مشکلات اور جان کا خطرہ، مگر مجال ہے کسی مقام پر آپؐ کے قدم ڈگمگائے ہوں یا بد دلی و مایوسی کا اظہار کیاہو۔ محسنِ انسانیتؐ نے ہر مشکل مرحلے میں امیدوں کے چراغ جلائے اور حوصلوں کو مہمیز دی۔ غارِ ثور میں یارِ غار کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ دشمن کھوج لگاتے ہوئے وہاں تک آپہنچے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن آپہنچے ہیں، ہم پکڑے گئے ہیں، مگر آپ نے فرمایا: مَاظَنُّکَ بِاِثْنَیْنِ اَللّٰہُ ثَالِثُہُمَا یَا اَبَابَکْرٍ لَاتَخَفْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا، یعنی اے ابوبکر!تجھے ان دو کے بارے میں کیا خطرہ لاحق ہوگیا ہے جن کا تیسرا ساتھی خود اللہ ہے، ہرگز نہ ڈرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ ، المجلدالاول، ص۵۶۴)۔ اسی مضمون کو سورۂ توبہ میں اللہ نے یوں بیان فرمایا ہے: ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ إِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ إِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبۃ۹:۴۰) ’’(یاد کرو)جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا، غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔
ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں سفر ہجرت کی تفصیلات میں فرماتے ہیں کہ غار کے دھانے پر مکڑی نے فوراً جالا تان لیا اور کبوتری نے گھونسلا بنا کر انڈے دے دیے۔ مشہور شاعر صرصری نے اپنی نعت کے ایک شعر میں لکھا:
فَغَمٰی عَلَیْہِ الْعَنْکَبُوْتُ بِنَسْجِہٖ
وَ ظَلَّ عَلَی الْبَابِ الْحَمَامُ یَبِیْضٗ
(ایضاً، ص۵۶۴۔۵۶۵)
سیرت کا مشہور واقعہ ہے کہ اسی سفر ہجرت میں انعام حاصل کرنے کے لالچ میں دیگر مہم جو نوجوانوں کی طرح سراقہ بن مالک بن جعشم بھی آپؐ کے تعاقب میں نکلا اور آپؐ کے قریب پہنچ گیا، مگر اس کے گھوڑے کے پاؤں دو مرتبہ زمین میں دھنس گئے۔ وہ خوف زدہ ہوا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی: ’’اے ابن عبدالمطلب! مجھے معاف کردو‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میں نے تجھے معاف کردیا‘‘۔ اس نے کہا کہ ازراہِ احسان اپنی امان مجھے لکھ کر بھی دے دیجیے۔ اس زمانے میں جو قلم وقرطاس کا زمانہ نہیں تھا اور اس کیفیت میں آپ کو اپنے گھر سے نکال دیا گیاتھا، سفر کی حالت میں یہ مطالبہ بظاہر کتنا عجیب بلکہ مضحکہ خیز نظر آتا ہے، مگر دیکھیے کہ نبیِ رحمتؐ اس حال میں بھی سرتاپا جود وسخا کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی ایمرجنسی میں قیصروکسریٰ بھی کسی کو پروانہ لکھ کر نہ دے سکتے، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہیرہؓ(یا بعض روایات کے مطابق حضرت ابوبکرؓ) سے کہا کہ اسے لکھ کر دے دیجیے۔ چنانچہ چمڑے کے ایک ٹکڑے پر اسے امان لکھ کر دی گئی۔ اسی موقع پر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ کو یہ خوش خبر بھی سنائی تھی کہ ایک دن شہنشاہِ ایران کسریٰ کے سونے کے کنگن اس کے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے۔ (البدایۃ والنہایۃ، الاول، ص۵۶۶ ۔۵۶۷)۔ دیکھیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مشکل ترین حالات میں بھی کس قدر جرأت مند، فیاض اور مستقبل کے حالات اور اسلام کی کامیابی سے پرامید تھے۔
ہجرت کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا گیا۔ ۲؍ہجری میں ابوجہل کی سرکردگی میں قریش مکہ کا ایک ہزار کا لشکر جرّار پورے سازوسامان سے لیس، مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے باہر ۸۰ میل کے فاصلے پر بدر کے مقام پر اس لشکر کا مقابلہ کیا۔ آپؐ کے ساتھ صرف۳۱۳جانثار تھے، جن کے پاس نہ تو پورا اسلحہ تھا، نہ ہی جنگی لباس تھا اور نہ کھانے پینے کے لیے وافر خوراک اور راشن ہی تھا۔ اس کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے میدان میں پہنچ کر مختلف مقامات پر اپنے نیزے سے نشان لگائے اور فرمایا کہ قریش کا فلاں سردار اس جگہ اور فلاں اس جگہ قتل ہوجائے گا اور لوگوں نے دیکھا کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوگئی۔ کفار کا لشکر بدترین شکست سے دوچار ہوا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مشکل گھڑی میں اتنے ثابت قدم تھے کہ آپ نے کفار سے ذرا برابر مرعوبیت اور خوف محسوس نہیں کیا بلکہ صحابہؓ کو بھی اتنا حوصلہ دیا کہ وہ لشکرجرار سے بے جگری سے لڑے اور ۷۰کفار کو قتل کرنے کے علاوہ ستر دشمن جنگی قیدی بنا لیے۔ (ایضاً،ص۶۰۸،۶۱۱)
غزوۂ احد، خندق اور حنین سخت ترین معرکے تھے۔ احد میں تو بالخصوص صحابہؓ کی ایک اجتہادی غلطی کے نتیجے میں فتح شکست میں بدل گئی۔ ستر صحابہ کرامؓ شہید ہوئے۔ آنحضور کے محبوب چچا حضرت حمزہؓ کی لاش کا مُثلہ کیا گیا۔ اس کے باوجود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم استقامت کا پہاڑ بنے میدان جنگ میں ڈٹے ہوئے تھے۔ سورۂ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: إِذْ تُصْعِدُوْنََ وَلَا تَلْوُوْنََ عَلٰٓی أحَدٍ وَّالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ فِیْٓ اُخْرَاکُمْ فَأَثَابَکُمْ غَمًَّام بِغَمٍّ لِّکَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا مَآ أَصَابَکُمْ وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo(اٰلِ عمرٰن۳:۱۵۳)’’یاد کرو جب تم بھاگے چلے جارہے تھے، کسی کی طرف پلٹ کر دیکھنے تک کا ہوش تمھیں نہ تھا، اور رسول تمھارے پیچھے تم کو پکار رہا تھا۔ اس وقت تمھاری اس روش کا بدلہ اللہ نے تمھیں یہ دیا کہ تم کو رنج پر رنج دیے تاکہ آیندہ کے لیے تمھیں یہ سبق ملے کہ جو کچھ تمھارے ہاتھ سے جائے یا جو مصیبت تم پر نازل ہو اس پر ملول نہ ہو۔ اللہ تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے‘‘۔
احادیث میں جنگِ اُحد کے حوالے سے یہ تذکرہ ملتا ہے کہ آپ میدان جنگ میں ڈٹے ہوئے تھے اور مسلسل کہہ رہے تھے: اِلََیَّ عِبَادَاللّٰہ (تفہیم القرآن،ج۱،ص۲۹۵)۔ ابوسفیان نے جب پہاڑ کے نیچے کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ ہم نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کردیا ہے۔ پھر بڑ ہانکی کہ ہم نے ابوقحافہ کے بیٹے ابوبکرؓ کو بھی قتل کردیا ہے، تو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خاموش رہو۔ پھر اس نے کہا کہ ہم نے جری جوان عمربن خطاب کو بھی قتل کردیا ہے۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر! جواب دو۔ حضرت عمرؓ نے کہا: نَحْنُ کُلُّنَا اَحْیَاءٌ نَسْمَعُ کَلَامَکَ یَا عَدُوَّاللّٰہِ،’’یعنی اے دشمن خدا ہم سب زندہ ہیں اور تیرا کلام سن رہے ہیں‘‘۔ پھر اس نے کہا ’’ہُبل سربلند ہوا‘‘اور اس کے ساتھ ہی کہا ’’ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا ہے‘‘۔ اس کے جواب میں حضرت عمرؓ نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کہا : اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ لَا سِوَاءَ، قَتَلَانَا فِی الجَنَّۃِ وَقَتَلَاکُمْ فِی النَّارِ،’’یعنی اللہ ہی بلندوبالا اور شان والا ہے ۔ بدر کا بدلہ تم کیسے لے سکتے ہو، ہمارے شہدا جنت میں چلے گئے ہیں اور تمھارے مقتولین دوزخ میں۔ ابوسفیان نے کہا اگلے سال پھر ہمارا تمھارا مقابلہ بدر میں ہوگا۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو جواب دو کہ ہمیں یہ چیلنج قبول ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ ، المجلدالاول، ص۶۸۶۔۶۸۷، تفہیم الاحادیث، ج۶، ص۱۰۷، ستمبر۲۰۰۰ء)۔اگلے سال آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ بدر کے میدان میں گئے، مگر ابوسفیان اور اس کی فوج کو ہمت نہ پڑی کہ وہ مقابلے کے لیے نکلتے۔
اسی موقعے پر شہدا کی تدفین کے بعد جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس پہنچے تو خبر ملی کہ ابوسفیان پلٹ کر مدینہ پر حملہ کرنا چاہتا ہے تاکہ مالِ غنیمت اور قیدی مکہ لے جائے۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو پکارا جو کمال جرأت وعزیمت کے ساتھ تیار ہوکر اللہ کے راستے میں نکلے۔ اس واقعہ کا تذکرہ خود قرآن مجید میں سورۂ آلِ عمران میں اللہ رب العزت نے شان دار الفاظ میں کیا ہے۔ آیت نمبر۱۷۲سے لے کر ۱۷۵ تک صحابہ کرامؓ کو اللہ نے وہ تمغہ عطا فرمایا ہے کہ جس کا کوئی بدل دنیا میں نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب منافقین اور یہودیوں نے اہلِ ایمان کو خوف زدہ کرنا چاہا تو انھوں نے کہا: حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ،’’یعنی ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارسازہے‘‘۔ ابوسفیان کا ارادہ واقعی واپس پلٹ کے حملہ کرنے کا تھا، مگر صحابہ کی جرأت واستقامت کی خبر پا کر وہ مدینہ کی طرف آنے کے بجاے مکہ کی طرف بھاگ گیا۔ اس جنگ کو غزوۂ حمراء الاسد کہا جاتا ہے۔
غزوہ خندق بھی بہت مشکل مرحلہ تھا۔ سورۃ الاحزاب میں اس کی شدت کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے: اِذْ جَآءُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنََ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنََا (الاحزاب۳۳:۱۰) ’’جب دشمن اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آگئے ، اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے‘‘۔ اتنے مشکل حالات میں صادق الایمان اہلِ مدینہ ڈٹے رہے اور خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے محاذ پر قیادت کا حق ادا کرتے رہے۔ آپؐ کا حوصلہ اتنا بلند اور فکر اتنی عظیم تھی کہ آپؐ مستقبل کی خوش خبریاں سنا رہے تھے۔ خندق کی کھدائی کے دوران بھی چٹان کو کدال سے توڑتے ہوئے آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو جزیرہ نماے عرب سے باہر کی فتوحات کی بشارتیں دی تھیں۔ حضرت سلمان فارسیؓ سے اس جنگ کے دوران نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لن تغزوکم قریش بعد عامکم ہذا ولکنکم تغزونھم،یعنی اب قریش کے لوگ تم پر کبھی چڑھائی نہ کرسکیں گے۔ اب تم ان پر چڑھائی کرو گے۔ ‘‘(دلائل النبوۃ للبیہقی، ج۳،ص۴۵۸)
غزوۂ حنین اور غزوۂ تبوک کے واقعات بھی قرآن وسنت میں تفصیلاً بیان کیے گئے ہیں۔ یہ دونوں مشکل مرحلے تھے، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حنین کے میدان میں بھی پیچھے ہٹنے کے بجاے آگے بڑھ رہے تھے اور مسلسل فرمارہے تھے: اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ، اَنَا بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ۔ اسی طرح غزوۂ تبوک میں بھی جب صحابہؓ نے کچھ سستی دکھائی تو اللہ نے بھی سورۂ توبہ میں ان کو جھنجھوڑا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بہت موثر خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں آپؐ نے کہا: ’’اگر کوئی بھی قیصر روم کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ نکلا تو میں تن تنہا (اللہ کے بھروسے پر) اس کے مقابلے کے لیے نکلوں گا اور اسے عرب کی سرحد پر جا کر روکوں گا‘‘۔ (البدایۃ والنہایۃ ، المجلدالاول، ص۹۰۴)
سیرت کے یہ سارے واقعات امت کو حوصلہ دینے، پرامید رہنے اور ہمیشہ کمرِ ہمت باندھے رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آج امت کے ہر چھوٹے بڑے کو شدید ضرورت ہے کہ وہ سیرت کا مطالعہ اس نقطۂ نظر سے کرے کہ ان پُرآشوب حالات میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لیے کیا درس فراہم کرتی ہے۔ قرآن کا حکم ہے: وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ (اٰلِ عمرٰن۳:۱۳۹)۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک ایک ورق اس آیت کی عملی تفسیرہے۔ دنیا سے قیصروکسریٰ کی نام نہاد سپریمیسی ہمارے اسلاف نے ختم کردی تھی۔ آج ہم انھی کے اَخلاف ہونے کے باوجود ، دورِ جدید کی نام نہاد سپر طاقتوں سے مرعوب اور اپنی حقیقت سے بے خبر ہیں، نہ وہ روح ہے ، نہ سوچ، نہ ایمان ہے نہ سوزویقین۔ بس اسے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر اسلام دنیا کا غالب دین بن کر رہے گا:
خداے لم یزل کا دستِ قدرت ُ تو ، زباں ُ تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے
مٹایا قیصروکسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا ، زورِ حیدرؓ ، فقرِ ُ بوذرؓ ، صدقِ سلمانیؓ