ڈاکٹر آر اے امتیاز
ایک آدمی جب کسی کے ہاں ملازمت شروع کرتا ہے تو اسے علم ہوتا ہے کہ اسکا مالک اس سے کیا چاہتا ہے؟یہ ذمہ داری مالک کی ہے کہ وہ اسے بتائے کہ اسے کب کیا کرنا ہے؟اسی طرح اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے یہ بتانا اللہ کی ذمہ داری ہے۔اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ ایک ایک شخص کے پاس آ کر خود بتائے کہ یوں کرنا ہے اور یوں نہیں کرنا۔بلکہ اللہ کے اس پیغام کو انبیاء نے پہنچایا اور یہی پیغام کائنات کی ہر شے قیامت تک دیتی رہے گی۔کہ یہاں ایثار چل رہا ہے۔اسے ایثار کہہ لیں یا آوئٹ پٹ out put کہ لیں یا قربانی کہہ لیں۔ایک ہی بات ہے اس کائنات کی ہرشے دوسرے کے لیے ایثار کر رہی ہے۔درخت اپنا پھل خود نہیں کھاتے۔بھینس اپنا دودھ خود نہیں پیتی۔سورج چاند ستارے ہوا پانی مٹی غرض ہر شے دوسروں کے لیے ایثار کر رہی ہے۔درخت پھل دے رہے ہیں۔زمین سے پھل پھول اوراناج پیدا ہوتے ہیں۔پانی ان کے لیے زندگیی کا پیغام ہے۔ہوا ان کی ہر لمحے کی ضرورت ہے۔روشنی کے بغیر چارہ کار نہیں ہے۔یہ پورا نظام ایک دوسرے کے لیے اوریہ سب کچھ حضرت انسان کے لیے ہے اور حضرت انسان ان سب چیزوں سے مستفید ہوتے ہوئے ایثارپر چلتے ہو ئے خالق کا نمائندہ ہے۔اب جو مرضی خالق کی وہی مرضی اس نمائندہ کی ہے۔یہ جب تک اس اصول پر قائم رہا اسکا حکم کائنات پر چلتا رہا۔جب اسے چھوڑا رسواء ہو کر رہ گیا۔اللہ تعالیٰ انسان سے یہی چاہتا ہے کہ وہ انسان بن کر چلے اور اس کائنات کے بہاؤ کے ساتھ بہنا بہت آسان مگر مشکل بھی ہے۔
ایک آدمی جب کسی کے ہاں ملازمت شروع کرتا ہے تو اسے علم ہوتا ہے کہ اسکا مالک اس سے کیا چاہتا ہے؟یہ ذمہ داری مالک کی ہے کہ وہ اسے بتائے کہ اسے کب کیا کرنا ہے؟اسی طرح اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے یہ بتانا اللہ کی ذمہ داری ہے۔اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ ایک ایک شخص کے پاس آ کر خود بتائے کہ یوں کرنا ہے اور یوں نہیں کرنا۔بلکہ اللہ کے اس پیغام کو انبیاء نے پہنچایا اور یہی پیغام کائنات کی ہر شے قیامت تک دیتی رہے گی۔کہ یہاں ایثار چل رہا ہے۔اسے ایثار کہہ لیں یا آوئٹ پٹ out put کہ لیں یا قربانی کہہ لیں۔ایک ہی بات ہے اس کائنات کی ہرشے دوسرے کے لیے ایثار کر رہی ہے۔درخت اپنا پھل خود نہیں کھاتے۔بھینس اپنا دودھ خود نہیں پیتی۔سورج چاند ستارے ہوا پانی مٹی غرض ہر شے دوسروں کے لیے ایثار کر رہی ہے۔درخت پھل دے رہے ہیں۔زمین سے پھل پھول اوراناج پیدا ہوتے ہیں۔پانی ان کے لیے زندگیی کا پیغام ہے۔ہوا ان کی ہر لمحے کی ضرورت ہے۔روشنی کے بغیر چارہ کار نہیں ہے۔یہ پورا نظام ایک دوسرے کے لیے اوریہ سب کچھ حضرت انسان کے لیے ہے اور حضرت انسان ان سب چیزوں سے مستفید ہوتے ہوئے ایثارپر چلتے ہو ئے خالق کا نمائندہ ہے۔اب جو مرضی خالق کی وہی مرضی اس نمائندہ کی ہے۔یہ جب تک اس اصول پر قائم رہا اسکا حکم کائنات پر چلتا رہا۔جب اسے چھوڑا رسواء ہو کر رہ گیا۔اللہ تعالیٰ انسان سے یہی چاہتا ہے کہ وہ انسان بن کر چلے اور اس کائنات کے بہاؤ کے ساتھ بہنا بہت آسان مگر مشکل بھی ہے۔