نیند کیوں ضروری ہے
نیند ایک فطری عمل ہے آدمی کام کر کرکے تھک جاتا ہے تو سستانے لگتا ہے لیٹ جاتا ہے ۔اونگھتا ہے سو جاتا ہے۔وہ آرام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔آرام کی طلب تھکے ماندے اعضائے جسمانی کی فطرت میں داخل ہے۔نیند سے آدمی کو یکسوئی نصیب ہوتی ہے اوروہ کچھ دیر دنیا کے ہنگاموں سے بے خبر ہو کر وقت گزارتا ہے۔آج کے مشینی دور اور تہذیب جس کی گڑ گڑاہٹ اور گھن گرج کے ماحول نے سکون کو برباد کر دیا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے نیند ہی سب سے موثر حربہ ہے۔مشینی دور کا شور اس دور کی سب سے بڑی لعنت ہے۔لیکن یہ شور سب سے ذیادہ تیسری دنیا کے معاشروں میں پایا جاتا ہے۔مغربی ممالک میں ماحول میں ایسا بے ہنگم شور نہیں ہوتا۔اس شور سے بچنے کے لیے جب آدمی کی آنکھ لگتی ہے تو جسم ٹوٹ پھوٹ کی تلافی کر لیتا ہے۔
جاگتے ہوئے ہم کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بدن میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی ہے۔وہ غذا جس سے جسم کی تعمیر ہوتی ہے جو ہمیں حرارے کیلوریز اورتوانائیاں دیتی ہے وہ کام کرنے سے خرچ ہوتے رہتے ہیں۔ایک گھنٹے میں نہانے سے سو حرارے،گاڑی یا موٹرسائیکل چلانے سے پچاس حرارے روٹی کھاتے وقت پچیس حرارے کرکٹ کی گیند پھینکتے وقت اڈھائی سو حرارے سائیکل چلانے سے تین سو حرارے اورمصوری میں ڈیڑھ سو حرارے کام آتے ہیں ۔ایک پونڈ چربی میں تین ہزار پانچ سو حرارے ہوتے ہیں۔
تھکن کیوں محسوس ہوتی ہے
جب حرارے ختم ہو تے چلے جاتے ہیں بدن تھکن محسوس کرتا ہے اور آرام چاہتا ہے۔نیند کام کے بوجھ اور تفکرات سے نجات دلانے کا معقول ذریعہ ہے۔لیکن کچھ ایسے بھی کم نصیب ہیں جنہیں نیند نہیں آتی اور وہ بے خوابی میں رات گزار دیتے ہیں۔بے خوابی عذاب تنہائی ہے۔ ایسا عذاب جسے کوئی دوسرا نہیں بانٹ سکتا۔ایک رات بھر جاگنے کا غم کون مٹائے اسے تو وہ اکیلا ہی جھیلتا ہے۔
نیند ایک فطری عمل مگر۔۔۔
نیند ایک فطری عمل ہے اور اسے فطری طور پر ہی آنا چاہیے مسکن ادویہ کے ذریعے نہیں۔یہ دور پر آشوب اور انتشار انگیز ہے۔اس میں نیند کی قدر اور بھی بڑھ گئی ہے۔اعصابی کھچاؤ تناؤ سے ناک میں دم ہے۔بے خوابی کا روگ لگ جائے تو اسکے تدارک کی ایک تدبیر یہ ہے کہ خاموشی سے بستر پر لیٹ جاؤ۔خواب آور گولیاں استعمال نہ کرو۔ورنہ مرض جڑ پکڑ جائے گا اور گولیوں کے بغیر پھر نیند نہیں آئے گی۔
خواب آور گولیوں کے اثرات
نیند لانے والی کوئی بھی خواب آور دوا مضر اثرات سے پاک نہیں۔بے خوابی کے مریضوں کو یہ حقیقت ذہن نشین کر لیا چاہیے کہ خواب آور دواؤں والی نیند وقت سے پہلے ابدی نیند میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
مغرب میں یہ وباء عام ہے وہاں جہاں مشینی تہذیب نے گل کھلائے ہیں وہاں لوگوں کی نیندیں بھی حرام کر دی ہیں۔صرف برطانیہ میں ہر روز پانچ ٹن اسپرین استعمال ہوتی ہے۔وہاں کے ذرائع ابالاغ ارورسائل اسپرین جیسی سکون بخش دوا کے مضر اثرات سے مطلع کرتے رہتے ہیں۔وہاں معیارتعلیم بلند اور تعلیم یافتہ لوگوں کا معیار بلند ہے۔پھر بھی لوگ زہر کھانے میں مصروف ہیں۔پڑہے لکھے لوگوں کی جہالت اس صدی کا بہت بڑا المیہ ہے۔
اسپرین کے نقصانات
اسپرین کے کثرت استعمال سے بد ہضمی تیزابیت بدن کے اندر جریان خون اور اسیے ہی امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔لندن کے ہسپتالوں میں معدے کے جریان خون کے جو مریض داخل ہوتے ہیں ان میں سے ایک چوتھائی اسپرین کے بری طرح سے عادی ہوتے ہیں۔غالباً لوگ سمجھتے ہیں کہ اسپرین بے خوابی کی دوا ہے یا اسے کھانے سے سکون جو عارضی سکون ملتا ہے۔وہ نیند کا نعم البدل ہے۔یہ در د ختم کرتی ہے ایسی اور بھی ادویہ ایسا کام کرتی ہیں۔نیند کے اوقات میں ان سے تکلیف رفع ہو جاتی ہے۔آدمی سکون سے سوتا ہے درد سے بچنے کے لیے لوگ ایسی ادویہ استعمال کرتے ہیں۔نیندتو درد رفع ہونے سے آتی ہے۔حقیقت میں یہ نیند کی قاتل ہیں۔بے خوابی ایک دوسری کیفیت ہے۔اس کا درد سے تعلق نہیں۔اس کے مختلف اسباب ہیں۔یہ دوائیں بے خوابی کا روگ دور نہیں کر سکتیں
بے خوابی کے اسباب
ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے گردے یا پتے کا درد فوری طور پر دور کرنے کے لیے کوئی درد مار دوا استعمال کی پھر بار بار کے حملے کی صورت میں اسی کا سہارا لیا۔اور انجام کار وہ اس کے عادی ہو گئے۔اب وہ بلا ضرورت اسے استعمال کرنے لگے اور جان خطرے میں ڈال کر رہ گئے۔یہ دوائیں صرف وقتی فائدے کے لیے ہیں۔مرض کا علاج نہیں۔
ان درد مار دواؤں میں کیفین کوڈین اور فینسٹین شامل ہوتی ہے۔جن مرکبات میں ایسے اجزاء شامل ہوں انہیں بہت احتیاط سے بوقت ضرورت استعمال کرنا چاہیے۔انکا اندھا دھند استعمال نقصان دہ وتا ہے۔کتنے ہی لوگوں کی زندگیاں بے احتیاتی کے باعث ضائع ہو گئیں۔
جاری ہے۔۔۔