مرزا جٹ کُتے کی بھونک پر
شہزاد بسراء
’’سر جی۔ مرزا جٹ کی قبر یہاں پاس ہی ہے ‘‘
’’واہ غفار۔ چلتے ہیں ۔پنجاب کے دلیر سپوت مرزا جٹ کے تو ہم بھی پرستار ہیں‘‘
جڑانوالہ کے قریبی گاؤں میں کسانوں کے اجتماع کو مورنگا کے بارے لیکچر دے کر اگلے گاؤں ڈجکوٹ کے لئے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ڈرائیور غفار نے سر پرائز دیا تو ہم نے فوراً حامی بھر لی۔ ساری مورنگا فار لائف ٹیم نے خوشی بھری حیرت کا اظہار کیا کہ ہم نے قدرے بور سفر میں کچھ رونق بخشی۔ یونیورسٹی کے تعاون سے ہم ہر ہفتہ کے روز مختلف اضلاع میں زمینداروں کو مورنگا کی افادیت اور اُس کا خصوصی استعمال برائے گندم کی بوائی کے بارے لیکچر کا پروگرام بنایا۔ ملک بھر سے لاتعداد زمینداروں، طلباء اور دیگر افراد جانب سے مورنگا پہ لیکچر دینے کی درخواستوں میں یہ فیصلہ کر نا دشوار تھا کہ کس کے پاس جائیں۔اِس سلسلے کاپہلے دورہ کا قرعہ جڑانوالہ کے قریبی گاؤں 240اور ڈجکوٹ کے نواحی گاؤں ناگاں کا نکلا۔ ہمارے ہمراہ تین یونیورسٹی ٹیچر ڈاکٹر عرفان افضل، حفیظ الرحمن اور حافظ مسعود تھے جبکہ مورنگا فار لائف کے جنرل سیکرٹری واصف ، میڈیا سیکرٹری آصف ، آفس انچارج ادریس اور میرے پرانے دوست حمید شاہد تھے۔
’’دانا آباد یہاں سے کس طرف اور کتنی دور ہے؟‘‘ ڈرائیور نے ایک راہ گیر سے پوچھا تو ہمیں تھوڑی فکر دامن گیر ہوئی تو ڈرائیور سے پوچھا
’’غفار ۔اِس کا مطلب ہے کہ تمہیں راستہ کا علم نہیں۔ ہم نے 12بجے اگلے گاؤں پہنچنا ہے۔ دیر نہ کروا دینا‘‘
’’سر جی میں کبھی وہاں گیا تو نہیں مگر زیادہ دیر نہیں ہوگی، یہاں سے قریب ہی ہے‘‘۔
’’کیوں بھائی موبائل فون عاشقو۔ اپنے گرو مرزا جٹ کی قبر کو سلام کر نا ہے؟‘‘ ہم نے آصف،واصف اور ادریس سے پوچھا۔
’’ڈاکٹر صاحب کیوں بچے خراب کرتے ہیں۔ یہ آصف اور واصف پہلے ہی ہیرو ہیں۔ اگر مرزا جٹ کی قبرپہ حاضری قبول ہوگئی تو پھر شکایت نہ کیجئے گا۔‘‘ عرفان نے سنجیدگی سے اندیشہ ظاہر کیا۔
’’عرفان صاحب فکر نہ کریں۔ یہ لڑکے تو مرزا جٹ کو بھی عاشقی کے گُر سکھائیں گے۔ چلتے ہیں مرزا کی نشانی کو Tribute پیش کرنے۔ جانے پھر موقع ملے نہ ملے‘‘۔
تھوڑی دیر بعدغفار پھر بریک لگاکر ایک راہ گیر سے مخاطب تھا ’’دانا آباد کو کونسا راستہ جاتا ہے؟‘‘
’’سیم کے ساتھ پکی سڑک جاتی ہے۔ دائیں طرف ‘‘ راہ گیر نے انگلی کا اشارہ کیا۔
اور یہ سیم کتنی دور ہے۔ یہ بھی پوچھ لو‘‘
’’4کلو میٹر ہوگا‘‘۔
اندازاً4-5کلومیڑ کے بعد جب کِسی سیم کا نشان نہ نظر آیا تو پھر پوچھا گیا تو جواب ملا
’’آگے 4مربعے پر سیم ہے‘‘۔
4کلو میٹر اور گزر گئے تو پھر پوچھنا پڑا ۔اِس دفعہ پھر 4-5کلِے پر سڑک کی اطلاع ملی۔ آخر ایک مدت بعد سیم نظر آ گئی تو پھر پوچھا
’’جنڈ والی کا راستہ کونسا ہے‘‘ غفار نے اَب دانا آباد کی بجائے نئی جگہ کا نام لیا۔
’’یہ سڑک آگے سے ٹوٹی ہو ئی ہے۔ 9میل مزیدآگے دائیں طرف ایک سڑک نکلتی ہے۔ آپ وہاں سے چلے جائیں تو بہتر ہو گا‘‘۔
’’غفار خاں یہ راستہ تو لمبا ہوتا جار ہا ہے۔ مگر چلو۔ اور یہ دانا آباد اور جنڈ والی کا کیا چکر ہے؟‘‘۔
’’سر جی۔ مرزا جٹ دانا آباد کا رہنے والا تھا مگر اُس کی قبر جنڈ والی قبرستان میں ہے۔ یہ قریب قریب ہیں‘‘۔
’’ڈاکٹر صاحب یہ مرزا جٹ تھا کون؟ ‘‘ عرفان نے بھولپن سے پوچھا۔
’’ماشا ء اللہ۔میں صدقے جاؤں جناب کے سوال پر۔شاہ رُخ کے پردادا کا بھی پتا ہے آپ کو مگر مرزا کو نہیں جانتے۔ بھئی یہ پنجاب کی مشہور لوک داستانوں میں سے ایک ہے۔ جیسے ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہنیوال‘‘
’’اچھا تو یہ بھی عاشق تھا۔ بلکہ عاشقِ نامراد‘‘
’’نہیں جناب یہ واحد عاشق تھا جس نے مراد پالی تھی۔ مرزا ایک دلیر کھرل جٹ تھا۔ باقی عاشقوں کی مانند ترلے منتیں نہیں کرتا تھا۔جب صاحباں کی جب شادی طے ہوئی تو مرزابجائے رونے دھونے کے اپنے گھوڑے بکّی پر صا حباں کو بھگا لایا‘‘۔
’’سر کیا مرزا بھی جٹ ہوتے ہیں۔فیصل آباد میں تو مغلوں کو مرزا کہتے ہیں۔ کیا وہ بھی جٹ ہیں؟‘‘
’’مرزا نام تھا اُس کا۔ وہ مغل نہیں تھا‘‘
’’سر یہ صاحباں کون تھی؟‘‘ آصف نے بھی پوچھنا فرض سمجھا۔
’’زرعی یونیورسٹی میں ہارٹیکلچر کی سٹودنٹ تھی۔ دفع ہو جاؤ تم لوگ کیا بالکل ہی ناواقف ہو۔ حافظ صاحب بتائیں انہیں کیا قصہ تھا‘‘۔ ہم نے قدرے خفگی سے سنجیدہ طبع حافظ صاحب کو کہا۔ غفار بولا’’ سر جی میں بتاتا ہوں۔ صاحباں مرزا کی کزن تھی۔ وہ کھیوا میں رہتی تھی‘‘۔
’’یہ کھیوا کہاں ہے؟‘‘ واصف نے پوچھا۔
’’سرجی ۔کھیوا چنیوٹ کے قریب ہے۔مرزا دانا آباد کے و ڈیرے کھرل جٹ خاندان کا چشم و چراغ تھا جبکہ صاحباں کھیوا کے حاکم سیالوں کی دھی تھی ‘‘
’’ یہ مرزا اتنی دور جا کے عاشق ہوا۔ چنیوٹ تو 50-60کلومیٹر دور ہے۔ مرزا کو قریب میں کوئی معشوق نہیں ملی‘‘ عرفان خاصہ حیرت زدہ تھا۔
’’مرزا کھیوا میں پڑھنے گیا تھا ۔وہاں صاحباں سے آنکھ مٹکا ہوگیا‘‘۔غفار نے اپنی علمیت بگھاری۔
’’ہاہا ہا۔ پھر تو وہ آصف کا بھائی نکلا۔ جیسے یہ بھی یونیورسٹی پڑھنے آیا ہے‘‘۔ عرفان نے آصف کی خوش شکلی اوررنگین مزاجی پر چوٹ کی۔
’’ڈاکٹر صاحب۔ یہ مرزا کیسا عاشق تھا۔ مجنوں ٹائپ تو نہیں تھا‘‘۔ حفیظ بھی پیچھے نہ رہا۔
’’نہیں بھائی۔ ہر داستان میں لڑکی کا نام پہلے آتا ہے۔ جیسے لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال۔ مگر صرف مرزا صاحباں میں مرزا کا نام پہلے آتا ہے۔ اِس کی وجہ شاید یہ ہے کہ مرزا واحد عاشق ہو گزرا ہے جو دلیر مرد تھا اور محبوبہ کو اُٹھا لایا۔ باقی عاشق ساری عمر یا تو محبوبہ کی بھینسیں چراتے رہے، جوگی بنے یا مجنوں۔ اگر موبائل نہ ہوتا تو یہ جو آپ کے ساتھ بیٹھے اپنے انگوٹھوں کی ورزش سے مسلسل رابطہ میں ہیں ، مجنوں ہوتے‘‘۔
’’ ڈاکٹر صاحب۔ مجھے تو لگتا ہے کہ مرزا کے صاحباں سے کچھ مشکوک مراسم تھے‘‘۔عرفان نے ایک اور الزام عائد کر دیا۔
’’شرم کرو کیا الفاظ استعمال کر رہے ہو۔ مگر زیبِ داستان یہی ہے کہ مرزا نے مراد پا لی تھی‘‘۔ ہم نے قدرے احتیاط سے وضاحت کی۔
’’یعنی ڈیٹ کامیاب تھی۔ آہم۔آہم۔آہم‘‘۔
’’مرزا چھا گیا‘‘۔
’’آخر جٹ تھا۔ خوش کیا۔ پنجاب کی پگ کی لاج رکھ لی‘‘
’’مرزا ضرور مورنگا کھاتا ہو گا‘‘۔گاڑی میں شور مچ گیا۔
’’خیر اتنی تفصیل کا تو مجھے علم نہیں مگر تم سب مرزا جٹ بننے کی کوشش نہ کرو۔ اور تو اور ادریس کو دیکھو کتنا خوش ہے‘‘
’’سر اِس نے تو صاحباں کو بھی باجی بنا لینا تھا۔ بڑا بیبا بچہ ہے‘‘ایک آواز آئی
’’غفارابھی نو میل نہیں ہوئے کیا؟ کسی اور سے پوچھو‘‘۔ ہمیں پریشانی لاحق ہونا شروع ہو گئی۔
اتنے میں ایک سڑک دائیں طرف مڑتی نظر آئی۔ وہی تھی۔ چھوٹی سی سڑک۔ پوچھا گیا تو جواب ملا کہ 4میل کے فاصلہ پر جنڈ والی ہے۔ سڑک شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ 4کی بجائے جب 7-8میل ہو گئے تو پھر پوچھا تو جواب ملا کہ بس4مربعے پر جنڈ والی ہے۔
’’لعنت ہو اِن پر کوئی ٹھیک سے راستہ نہیں بتا تا۔ 40میل کا سفر کر لیا ہے جڑانوالہ سے ۔ کبھی4میل، کبھی 4کلو میٹر ، تو کبھی 4مربعے تو کبھی 4 کلے ہی ختم ہی نہیں ہو رہے۔ پورے علاقہ نے 4 کا پہاڑہ یاد کر رکھا ہے‘‘۔ ہم نے گھڑی دیکھی تو 12بج چکے تھے جو اگلے گاؤں پہنچنے کا ٹائم تھا۔
’’ڈاکٹر صاحب ۔ جب مرزا جٹ صاحباں کو اُٹھا لایا تو اُن کی شادی ہوگئی تھی کیا؟‘۔ واصف نے دریافت کیا۔
’’یہی تو المیہ ہوا اِس کہانی میں۔ مرزا ایک بر گد کے درخت تلے سانس لینے کو رُکا تو نیند نے آ لیا۔ صاحباں کو شک تھا کہ اُس کے بھائی پیچھا کر تے آ گئے تووہ اُس کے بھائیوں کو مار دے گا۔ مرزا کا نشانہ بہت پکا تھا۔ اُس کی تیر اندازی کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ صاحباں نے سب تیر توڑ ڈالے۔ صاحباں کے بھائی آن پہنچے ۔ مرزا نے مقابلے کے لیے جب کمان پکڑی تو تیر ٹوٹے ہوئے تھے۔ مارا گیا‘‘۔
’’ سر وہ تیر کیا پلاسٹک کے تھے؟‘ عرفان نے پوچھا۔
’’کیا مطلب‘‘۔
’’اگر لوہے کے تھے تو پھر آپ مجھے توڑ کر دکھائیں، صاحباں تو لڑکی تھی۔ کیا وہ مورنگا کھاتی تھی؟‘‘۔
حمید بھی کسی سے پیچھے نہ رہا۔ ’’لگتا ہے کہ مرزا نیند کی گو لی کھا کر سویا تھا کہ اُسے ٹھاہ ٹھاہ کی آوازیں جو تیر ٹوٹنے سے آئی وہ سنائی نہ دی‘‘۔
’’ہو سکتا ہے کہ وہ بہر ہ ہو‘‘۔ پیچھے سے آواز آئی۔
’’اوے شرم کرو۔ ایک سچے عاشق کے بارے میں کیسے کلمات کہہ رہے ہو‘‘۔ہم نے ڈانٹا۔
جب کئی 4کلو میٹر ہو گئے تو آگے سڑک ہی ختم ہو گئی۔ صرف بیل گاڑیوں کے لئے ایک کچا راستہ تھا۔ قریب ہی کسی بزرگ کا خستہ حال مزار تھا۔ ہرا گنبد تھا ، چند دیئے اور کچھ پھٹی پُرانی جھنڈیاں۔ پاس ہی ایک شخص چند بسکٹ کے پیکٹ، ٹافیاں وغیرہ بیچنے کے لئے رکھے بیٹھا تھا۔ اِس ویرانے میں کون گاہک تھے۔ نظر تو نہ آئے۔ پھر رُکے اور اُس سے بھی وہی سوال کیا ’’جنڈ والی کہاں ہے؟‘‘۔
’’یہ جو سامنے راجباہ نظر آ رہا ہے۔ اِس کے ساتھ کچے راستے پر چلتے جائیں۔ کوئی 4کلو میٹر کے فاصلہ پر جنڈوالی آ جائے گا‘‘۔
’’اوے تم لوگوں کے یہ 4کلو میٹر ہی ختم نہیں ہو رہے۔ کوئی 50کلو میٹر آگئے ہیں۔ سچی بتاؤ‘‘۔
’’ وہ سب جھوٹ بولتے ہونگے ۔ یہاں سے 4کلو میٹر ہی ہے‘‘۔
’’سر آگے تو سڑک ہی نہیں ہے۔ واپس چلتے ہیں‘‘۔ حفیظ پریشان ہو گیا۔
’’نہیں بھائی اَب مرزا جٹ کی قبر کو سلام کئے بنا تو نہیں جائیں گے۔اتنے قریب آ کر کے تو واپس نہیں جائیں گے‘‘۔
وہ سڑک نہ تھی۔ بیل گاڑیوں کا راستہ تھا۔ اِس قدر خراب کے کہیں کہیں تو لگتا کہ کھیتوں میں جا رہے ہیں۔
’’سر آپ نے بھی یہ مان لیا کہ ایک لڑکی نے ہا تھوں سے بغیرآواز پیدا کئے تیر توڑ ڈالے؟‘‘ عرفان ابھی تک اُسی اُلجھن میں تھا۔’’ڈاکٹر صاحب ۔ فرض کیا کہ صاحباں نے تیر توڑ ڈالے۔ مگر کیوں؟‘‘۔
’’بھائی۔ وہ اپنے بھائی بچانا چاہتی تھی۔ عاشقوں کا کیاہے۔ زرعی یونیورسٹی آ جائے۔ ایک دِن میں 100مل جائیں گے۔ کیوں آصف؟ مگر بھائی نہیں ملیں گے‘‘۔ہم نے وضاحت کی
’’لعنت ہو بھائی بچا لئے اور عاشق مروا دیا۔ ضرور مرزا نے اُس سے کچھ غلط حرکت کی ہوگی جس کا صاحباں نے بدلہ لیا‘‘ عرفان بڑی دور کی کوڑی لایا۔
’’سر جی مرزا کیا اکیلا ہی اتنی دور گیا تھا‘‘۔حافظ بھی حیران تھے
’’بتا یا تو ہے کہ بہت دلیر تھا۔ بکی گھوڑی پر گیا اور اُٹھا لایا صاحباں کو‘‘۔
’’اُٹھا یا تو نہیں ہوگا۔ وہ مجھے لگتا ہے کہ وہ ذرا ایسی ہی تھی۔ خود ہی گھوڑے پر بیٹھ گئی ہوگی۔‘‘عرفان نے سنجیدگی برقرار رکھی۔
’’جی جی۔ وہ خود بیٹھی تھی۔ اُس نے خودمرزا کو بلوایا تھا کہ یا تو لے جاؤ مجھے یا پھر مہندی لگا جاؤ‘‘۔
’’ویسے ڈاکٹر صاحب مہندی لگانا آسان تھا مرزا کے لیے۔‘‘حمید صاحب نے رائے دی ۔
ہم چڑ کے بولے۔’’اگر وہ مہندی لگا آتاتم لوگوں کی طرح تو پھر یہ قصہ جو آج تک سنتے ہیں وہ نہ ہوتا۔ عالم لوہار کیاگاتا۔ ہربھجن مان کا با کمال گیت سننے کو نہ ملتا‘‘۔
’’ مگر سرجب صاحباں نے خود مرزا کو بُلا یا تھا تو پھر مروا یا کیوں؟‘‘۔آصف کی تسلی نہیں ہو رہی تھی۔’’مرزا کو مروانے کے بعد صاحباں کی شادی کس سے ہوئی؟۔
’’ تیر ی کیوں رال ٹپک رہی ہے آصف کے بچے۔صاحباں کا خیال تھا کہ اُس کے بھائی مرزا کو نہیں ماریں گے۔جب مرزا کو مار دیا گیا توصاحباں نے مرزا کی تلوار پکڑی اور خود کشی کرلی۔‘‘
آخر ایک لمبے عرصے بعد وہ خوفناک کچا راستہ ختم ہوا اور پکی سڑک آگئی اور ساتھ ہی جنڈ والی بھی۔ ایک دیہاتی سے پوچھا کہ قبرستان کہاں ہے تو اُس نے بتایا کہ قبر ستان تو قریب ہی ہے مگر آپ نے جانا کہاں ہے۔
’’بھئی دراصل ہم نے مرزا جٹ کی مزار پر جانا ہے‘‘۔
’’سخی مرزا کا دربار تو پیچھے سیم کے قریب ہے‘‘
’’ مارے گئے کہیں وہی تو نہیں تھا جہاں ہم نے بسکٹ بیچنے والے سے راستہ پوچھا تھا۔ اِس خوفناک کچے راستے سے پہلے‘‘۔
’’جی وہی ہے ‘‘۔
’’غفار بہت دیر ہوگئی ہے۔ اب واپس نہیں جانا۔ آگے کا راستہ پوچھو اور چلو‘‘۔
دیہاتی بولا ’’سخی مرزا کا دربار دور نہیں ہے او کُتے دی بھونک تے کھلا اے۔ ونج جاؤ (زیادہ دور نہیں ،کُتے کی بھونک کی آواز جہاں تک جاسکے، وہاں تک ہی تو ہے۔ چلے جاؤ)۔
جانگلی لوگ جب راستہ بتاتے ہیں تو یہ کہتے ہیں’’ کُتے کی بھونک پر کھڑا ہے‘‘ مطلب زیادہ دور نہیں۔
دیر ہو چکی تھی۔ واپسی ممکن نہ تھی۔
’’ نہیں بھائی جی۔ دربار کُتے کی نہیں بم کی آواز تک ہے‘‘
شیروں جیسے دلیر عاشق مرزا جٹ کی قبر کا دیدار صرف کتے کی بھونک کی مختصر دوری پہ تھا مگر دِل میں حسرت لیے آگے بڑھ گئے۔ صاحباں نے تیر توڑ کر بھائیوں سے مرزا جٹ کو مروا دیا اور آج ہم جاٹوں کو 4میل، 4کلومیٹر، 4مربعے بتانے والے صاحباں کے بھائیوں نے مروا دیا۔ ہمیں تو امریکی حکومت بھی صاحباں لگی۔ جو اپنے حسن و ادا سے گرویدہ کر کے مشکل حالات میں عاشق کے سب تیر کمان توڑ ڈالتی ہے اور کڑے وقت میں ساتھ دینے کی بجائے مروا دیتی ہے۔
شہزاد بسراء
’’سر جی۔ مرزا جٹ کی قبر یہاں پاس ہی ہے ‘‘
’’واہ غفار۔ چلتے ہیں ۔پنجاب کے دلیر سپوت مرزا جٹ کے تو ہم بھی پرستار ہیں‘‘
جڑانوالہ کے قریبی گاؤں میں کسانوں کے اجتماع کو مورنگا کے بارے لیکچر دے کر اگلے گاؤں ڈجکوٹ کے لئے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ڈرائیور غفار نے سر پرائز دیا تو ہم نے فوراً حامی بھر لی۔ ساری مورنگا فار لائف ٹیم نے خوشی بھری حیرت کا اظہار کیا کہ ہم نے قدرے بور سفر میں کچھ رونق بخشی۔ یونیورسٹی کے تعاون سے ہم ہر ہفتہ کے روز مختلف اضلاع میں زمینداروں کو مورنگا کی افادیت اور اُس کا خصوصی استعمال برائے گندم کی بوائی کے بارے لیکچر کا پروگرام بنایا۔ ملک بھر سے لاتعداد زمینداروں، طلباء اور دیگر افراد جانب سے مورنگا پہ لیکچر دینے کی درخواستوں میں یہ فیصلہ کر نا دشوار تھا کہ کس کے پاس جائیں۔اِس سلسلے کاپہلے دورہ کا قرعہ جڑانوالہ کے قریبی گاؤں 240اور ڈجکوٹ کے نواحی گاؤں ناگاں کا نکلا۔ ہمارے ہمراہ تین یونیورسٹی ٹیچر ڈاکٹر عرفان افضل، حفیظ الرحمن اور حافظ مسعود تھے جبکہ مورنگا فار لائف کے جنرل سیکرٹری واصف ، میڈیا سیکرٹری آصف ، آفس انچارج ادریس اور میرے پرانے دوست حمید شاہد تھے۔
’’دانا آباد یہاں سے کس طرف اور کتنی دور ہے؟‘‘ ڈرائیور نے ایک راہ گیر سے پوچھا تو ہمیں تھوڑی فکر دامن گیر ہوئی تو ڈرائیور سے پوچھا
’’غفار ۔اِس کا مطلب ہے کہ تمہیں راستہ کا علم نہیں۔ ہم نے 12بجے اگلے گاؤں پہنچنا ہے۔ دیر نہ کروا دینا‘‘
’’سر جی میں کبھی وہاں گیا تو نہیں مگر زیادہ دیر نہیں ہوگی، یہاں سے قریب ہی ہے‘‘۔
’’کیوں بھائی موبائل فون عاشقو۔ اپنے گرو مرزا جٹ کی قبر کو سلام کر نا ہے؟‘‘ ہم نے آصف،واصف اور ادریس سے پوچھا۔
’’ڈاکٹر صاحب کیوں بچے خراب کرتے ہیں۔ یہ آصف اور واصف پہلے ہی ہیرو ہیں۔ اگر مرزا جٹ کی قبرپہ حاضری قبول ہوگئی تو پھر شکایت نہ کیجئے گا۔‘‘ عرفان نے سنجیدگی سے اندیشہ ظاہر کیا۔
’’عرفان صاحب فکر نہ کریں۔ یہ لڑکے تو مرزا جٹ کو بھی عاشقی کے گُر سکھائیں گے۔ چلتے ہیں مرزا کی نشانی کو Tribute پیش کرنے۔ جانے پھر موقع ملے نہ ملے‘‘۔
تھوڑی دیر بعدغفار پھر بریک لگاکر ایک راہ گیر سے مخاطب تھا ’’دانا آباد کو کونسا راستہ جاتا ہے؟‘‘
’’سیم کے ساتھ پکی سڑک جاتی ہے۔ دائیں طرف ‘‘ راہ گیر نے انگلی کا اشارہ کیا۔
اور یہ سیم کتنی دور ہے۔ یہ بھی پوچھ لو‘‘
’’4کلو میٹر ہوگا‘‘۔
اندازاً4-5کلومیڑ کے بعد جب کِسی سیم کا نشان نہ نظر آیا تو پھر پوچھا گیا تو جواب ملا
’’آگے 4مربعے پر سیم ہے‘‘۔
4کلو میٹر اور گزر گئے تو پھر پوچھنا پڑا ۔اِس دفعہ پھر 4-5کلِے پر سڑک کی اطلاع ملی۔ آخر ایک مدت بعد سیم نظر آ گئی تو پھر پوچھا
’’جنڈ والی کا راستہ کونسا ہے‘‘ غفار نے اَب دانا آباد کی بجائے نئی جگہ کا نام لیا۔
’’یہ سڑک آگے سے ٹوٹی ہو ئی ہے۔ 9میل مزیدآگے دائیں طرف ایک سڑک نکلتی ہے۔ آپ وہاں سے چلے جائیں تو بہتر ہو گا‘‘۔
’’غفار خاں یہ راستہ تو لمبا ہوتا جار ہا ہے۔ مگر چلو۔ اور یہ دانا آباد اور جنڈ والی کا کیا چکر ہے؟‘‘۔
’’سر جی۔ مرزا جٹ دانا آباد کا رہنے والا تھا مگر اُس کی قبر جنڈ والی قبرستان میں ہے۔ یہ قریب قریب ہیں‘‘۔
’’ڈاکٹر صاحب یہ مرزا جٹ تھا کون؟ ‘‘ عرفان نے بھولپن سے پوچھا۔
’’ماشا ء اللہ۔میں صدقے جاؤں جناب کے سوال پر۔شاہ رُخ کے پردادا کا بھی پتا ہے آپ کو مگر مرزا کو نہیں جانتے۔ بھئی یہ پنجاب کی مشہور لوک داستانوں میں سے ایک ہے۔ جیسے ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہنیوال‘‘
’’اچھا تو یہ بھی عاشق تھا۔ بلکہ عاشقِ نامراد‘‘
’’نہیں جناب یہ واحد عاشق تھا جس نے مراد پالی تھی۔ مرزا ایک دلیر کھرل جٹ تھا۔ باقی عاشقوں کی مانند ترلے منتیں نہیں کرتا تھا۔جب صاحباں کی جب شادی طے ہوئی تو مرزابجائے رونے دھونے کے اپنے گھوڑے بکّی پر صا حباں کو بھگا لایا‘‘۔
’’سر کیا مرزا بھی جٹ ہوتے ہیں۔فیصل آباد میں تو مغلوں کو مرزا کہتے ہیں۔ کیا وہ بھی جٹ ہیں؟‘‘
’’مرزا نام تھا اُس کا۔ وہ مغل نہیں تھا‘‘
’’سر یہ صاحباں کون تھی؟‘‘ آصف نے بھی پوچھنا فرض سمجھا۔
’’زرعی یونیورسٹی میں ہارٹیکلچر کی سٹودنٹ تھی۔ دفع ہو جاؤ تم لوگ کیا بالکل ہی ناواقف ہو۔ حافظ صاحب بتائیں انہیں کیا قصہ تھا‘‘۔ ہم نے قدرے خفگی سے سنجیدہ طبع حافظ صاحب کو کہا۔ غفار بولا’’ سر جی میں بتاتا ہوں۔ صاحباں مرزا کی کزن تھی۔ وہ کھیوا میں رہتی تھی‘‘۔
’’یہ کھیوا کہاں ہے؟‘‘ واصف نے پوچھا۔
’’سرجی ۔کھیوا چنیوٹ کے قریب ہے۔مرزا دانا آباد کے و ڈیرے کھرل جٹ خاندان کا چشم و چراغ تھا جبکہ صاحباں کھیوا کے حاکم سیالوں کی دھی تھی ‘‘
’’ یہ مرزا اتنی دور جا کے عاشق ہوا۔ چنیوٹ تو 50-60کلومیٹر دور ہے۔ مرزا کو قریب میں کوئی معشوق نہیں ملی‘‘ عرفان خاصہ حیرت زدہ تھا۔
’’مرزا کھیوا میں پڑھنے گیا تھا ۔وہاں صاحباں سے آنکھ مٹکا ہوگیا‘‘۔غفار نے اپنی علمیت بگھاری۔
’’ہاہا ہا۔ پھر تو وہ آصف کا بھائی نکلا۔ جیسے یہ بھی یونیورسٹی پڑھنے آیا ہے‘‘۔ عرفان نے آصف کی خوش شکلی اوررنگین مزاجی پر چوٹ کی۔
’’ڈاکٹر صاحب۔ یہ مرزا کیسا عاشق تھا۔ مجنوں ٹائپ تو نہیں تھا‘‘۔ حفیظ بھی پیچھے نہ رہا۔
’’نہیں بھائی۔ ہر داستان میں لڑکی کا نام پہلے آتا ہے۔ جیسے لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال۔ مگر صرف مرزا صاحباں میں مرزا کا نام پہلے آتا ہے۔ اِس کی وجہ شاید یہ ہے کہ مرزا واحد عاشق ہو گزرا ہے جو دلیر مرد تھا اور محبوبہ کو اُٹھا لایا۔ باقی عاشق ساری عمر یا تو محبوبہ کی بھینسیں چراتے رہے، جوگی بنے یا مجنوں۔ اگر موبائل نہ ہوتا تو یہ جو آپ کے ساتھ بیٹھے اپنے انگوٹھوں کی ورزش سے مسلسل رابطہ میں ہیں ، مجنوں ہوتے‘‘۔
’’ ڈاکٹر صاحب۔ مجھے تو لگتا ہے کہ مرزا کے صاحباں سے کچھ مشکوک مراسم تھے‘‘۔عرفان نے ایک اور الزام عائد کر دیا۔
’’شرم کرو کیا الفاظ استعمال کر رہے ہو۔ مگر زیبِ داستان یہی ہے کہ مرزا نے مراد پا لی تھی‘‘۔ ہم نے قدرے احتیاط سے وضاحت کی۔
’’یعنی ڈیٹ کامیاب تھی۔ آہم۔آہم۔آہم‘‘۔
’’مرزا چھا گیا‘‘۔
’’آخر جٹ تھا۔ خوش کیا۔ پنجاب کی پگ کی لاج رکھ لی‘‘
’’مرزا ضرور مورنگا کھاتا ہو گا‘‘۔گاڑی میں شور مچ گیا۔
’’خیر اتنی تفصیل کا تو مجھے علم نہیں مگر تم سب مرزا جٹ بننے کی کوشش نہ کرو۔ اور تو اور ادریس کو دیکھو کتنا خوش ہے‘‘
’’سر اِس نے تو صاحباں کو بھی باجی بنا لینا تھا۔ بڑا بیبا بچہ ہے‘‘ایک آواز آئی
’’غفارابھی نو میل نہیں ہوئے کیا؟ کسی اور سے پوچھو‘‘۔ ہمیں پریشانی لاحق ہونا شروع ہو گئی۔
اتنے میں ایک سڑک دائیں طرف مڑتی نظر آئی۔ وہی تھی۔ چھوٹی سی سڑک۔ پوچھا گیا تو جواب ملا کہ 4میل کے فاصلہ پر جنڈ والی ہے۔ سڑک شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ 4کی بجائے جب 7-8میل ہو گئے تو پھر پوچھا تو جواب ملا کہ بس4مربعے پر جنڈ والی ہے۔
’’لعنت ہو اِن پر کوئی ٹھیک سے راستہ نہیں بتا تا۔ 40میل کا سفر کر لیا ہے جڑانوالہ سے ۔ کبھی4میل، کبھی 4کلو میٹر ، تو کبھی 4مربعے تو کبھی 4 کلے ہی ختم ہی نہیں ہو رہے۔ پورے علاقہ نے 4 کا پہاڑہ یاد کر رکھا ہے‘‘۔ ہم نے گھڑی دیکھی تو 12بج چکے تھے جو اگلے گاؤں پہنچنے کا ٹائم تھا۔
’’ڈاکٹر صاحب ۔ جب مرزا جٹ صاحباں کو اُٹھا لایا تو اُن کی شادی ہوگئی تھی کیا؟‘۔ واصف نے دریافت کیا۔
’’یہی تو المیہ ہوا اِس کہانی میں۔ مرزا ایک بر گد کے درخت تلے سانس لینے کو رُکا تو نیند نے آ لیا۔ صاحباں کو شک تھا کہ اُس کے بھائی پیچھا کر تے آ گئے تووہ اُس کے بھائیوں کو مار دے گا۔ مرزا کا نشانہ بہت پکا تھا۔ اُس کی تیر اندازی کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ صاحباں نے سب تیر توڑ ڈالے۔ صاحباں کے بھائی آن پہنچے ۔ مرزا نے مقابلے کے لیے جب کمان پکڑی تو تیر ٹوٹے ہوئے تھے۔ مارا گیا‘‘۔
’’ سر وہ تیر کیا پلاسٹک کے تھے؟‘ عرفان نے پوچھا۔
’’کیا مطلب‘‘۔
’’اگر لوہے کے تھے تو پھر آپ مجھے توڑ کر دکھائیں، صاحباں تو لڑکی تھی۔ کیا وہ مورنگا کھاتی تھی؟‘‘۔
حمید بھی کسی سے پیچھے نہ رہا۔ ’’لگتا ہے کہ مرزا نیند کی گو لی کھا کر سویا تھا کہ اُسے ٹھاہ ٹھاہ کی آوازیں جو تیر ٹوٹنے سے آئی وہ سنائی نہ دی‘‘۔
’’ہو سکتا ہے کہ وہ بہر ہ ہو‘‘۔ پیچھے سے آواز آئی۔
’’اوے شرم کرو۔ ایک سچے عاشق کے بارے میں کیسے کلمات کہہ رہے ہو‘‘۔ہم نے ڈانٹا۔
جب کئی 4کلو میٹر ہو گئے تو آگے سڑک ہی ختم ہو گئی۔ صرف بیل گاڑیوں کے لئے ایک کچا راستہ تھا۔ قریب ہی کسی بزرگ کا خستہ حال مزار تھا۔ ہرا گنبد تھا ، چند دیئے اور کچھ پھٹی پُرانی جھنڈیاں۔ پاس ہی ایک شخص چند بسکٹ کے پیکٹ، ٹافیاں وغیرہ بیچنے کے لئے رکھے بیٹھا تھا۔ اِس ویرانے میں کون گاہک تھے۔ نظر تو نہ آئے۔ پھر رُکے اور اُس سے بھی وہی سوال کیا ’’جنڈ والی کہاں ہے؟‘‘۔
’’یہ جو سامنے راجباہ نظر آ رہا ہے۔ اِس کے ساتھ کچے راستے پر چلتے جائیں۔ کوئی 4کلو میٹر کے فاصلہ پر جنڈوالی آ جائے گا‘‘۔
’’اوے تم لوگوں کے یہ 4کلو میٹر ہی ختم نہیں ہو رہے۔ کوئی 50کلو میٹر آگئے ہیں۔ سچی بتاؤ‘‘۔
’’ وہ سب جھوٹ بولتے ہونگے ۔ یہاں سے 4کلو میٹر ہی ہے‘‘۔
’’سر آگے تو سڑک ہی نہیں ہے۔ واپس چلتے ہیں‘‘۔ حفیظ پریشان ہو گیا۔
’’نہیں بھائی اَب مرزا جٹ کی قبر کو سلام کئے بنا تو نہیں جائیں گے۔اتنے قریب آ کر کے تو واپس نہیں جائیں گے‘‘۔
وہ سڑک نہ تھی۔ بیل گاڑیوں کا راستہ تھا۔ اِس قدر خراب کے کہیں کہیں تو لگتا کہ کھیتوں میں جا رہے ہیں۔
’’سر آپ نے بھی یہ مان لیا کہ ایک لڑکی نے ہا تھوں سے بغیرآواز پیدا کئے تیر توڑ ڈالے؟‘‘ عرفان ابھی تک اُسی اُلجھن میں تھا۔’’ڈاکٹر صاحب ۔ فرض کیا کہ صاحباں نے تیر توڑ ڈالے۔ مگر کیوں؟‘‘۔
’’بھائی۔ وہ اپنے بھائی بچانا چاہتی تھی۔ عاشقوں کا کیاہے۔ زرعی یونیورسٹی آ جائے۔ ایک دِن میں 100مل جائیں گے۔ کیوں آصف؟ مگر بھائی نہیں ملیں گے‘‘۔ہم نے وضاحت کی
’’لعنت ہو بھائی بچا لئے اور عاشق مروا دیا۔ ضرور مرزا نے اُس سے کچھ غلط حرکت کی ہوگی جس کا صاحباں نے بدلہ لیا‘‘ عرفان بڑی دور کی کوڑی لایا۔
’’سر جی مرزا کیا اکیلا ہی اتنی دور گیا تھا‘‘۔حافظ بھی حیران تھے
’’بتا یا تو ہے کہ بہت دلیر تھا۔ بکی گھوڑی پر گیا اور اُٹھا لایا صاحباں کو‘‘۔
’’اُٹھا یا تو نہیں ہوگا۔ وہ مجھے لگتا ہے کہ وہ ذرا ایسی ہی تھی۔ خود ہی گھوڑے پر بیٹھ گئی ہوگی۔‘‘عرفان نے سنجیدگی برقرار رکھی۔
’’جی جی۔ وہ خود بیٹھی تھی۔ اُس نے خودمرزا کو بلوایا تھا کہ یا تو لے جاؤ مجھے یا پھر مہندی لگا جاؤ‘‘۔
’’ویسے ڈاکٹر صاحب مہندی لگانا آسان تھا مرزا کے لیے۔‘‘حمید صاحب نے رائے دی ۔
ہم چڑ کے بولے۔’’اگر وہ مہندی لگا آتاتم لوگوں کی طرح تو پھر یہ قصہ جو آج تک سنتے ہیں وہ نہ ہوتا۔ عالم لوہار کیاگاتا۔ ہربھجن مان کا با کمال گیت سننے کو نہ ملتا‘‘۔
’’ مگر سرجب صاحباں نے خود مرزا کو بُلا یا تھا تو پھر مروا یا کیوں؟‘‘۔آصف کی تسلی نہیں ہو رہی تھی۔’’مرزا کو مروانے کے بعد صاحباں کی شادی کس سے ہوئی؟۔
’’ تیر ی کیوں رال ٹپک رہی ہے آصف کے بچے۔صاحباں کا خیال تھا کہ اُس کے بھائی مرزا کو نہیں ماریں گے۔جب مرزا کو مار دیا گیا توصاحباں نے مرزا کی تلوار پکڑی اور خود کشی کرلی۔‘‘
آخر ایک لمبے عرصے بعد وہ خوفناک کچا راستہ ختم ہوا اور پکی سڑک آگئی اور ساتھ ہی جنڈ والی بھی۔ ایک دیہاتی سے پوچھا کہ قبرستان کہاں ہے تو اُس نے بتایا کہ قبر ستان تو قریب ہی ہے مگر آپ نے جانا کہاں ہے۔
’’بھئی دراصل ہم نے مرزا جٹ کی مزار پر جانا ہے‘‘۔
’’سخی مرزا کا دربار تو پیچھے سیم کے قریب ہے‘‘
’’ مارے گئے کہیں وہی تو نہیں تھا جہاں ہم نے بسکٹ بیچنے والے سے راستہ پوچھا تھا۔ اِس خوفناک کچے راستے سے پہلے‘‘۔
’’جی وہی ہے ‘‘۔
’’غفار بہت دیر ہوگئی ہے۔ اب واپس نہیں جانا۔ آگے کا راستہ پوچھو اور چلو‘‘۔
دیہاتی بولا ’’سخی مرزا کا دربار دور نہیں ہے او کُتے دی بھونک تے کھلا اے۔ ونج جاؤ (زیادہ دور نہیں ،کُتے کی بھونک کی آواز جہاں تک جاسکے، وہاں تک ہی تو ہے۔ چلے جاؤ)۔
جانگلی لوگ جب راستہ بتاتے ہیں تو یہ کہتے ہیں’’ کُتے کی بھونک پر کھڑا ہے‘‘ مطلب زیادہ دور نہیں۔
دیر ہو چکی تھی۔ واپسی ممکن نہ تھی۔
’’ نہیں بھائی جی۔ دربار کُتے کی نہیں بم کی آواز تک ہے‘‘
شیروں جیسے دلیر عاشق مرزا جٹ کی قبر کا دیدار صرف کتے کی بھونک کی مختصر دوری پہ تھا مگر دِل میں حسرت لیے آگے بڑھ گئے۔ صاحباں نے تیر توڑ کر بھائیوں سے مرزا جٹ کو مروا دیا اور آج ہم جاٹوں کو 4میل، 4کلومیٹر، 4مربعے بتانے والے صاحباں کے بھائیوں نے مروا دیا۔ ہمیں تو امریکی حکومت بھی صاحباں لگی۔ جو اپنے حسن و ادا سے گرویدہ کر کے مشکل حالات میں عاشق کے سب تیر کمان توڑ ڈالتی ہے اور کڑے وقت میں ساتھ دینے کی بجائے مروا دیتی ہے۔