از ڈاکٹر جاوید جمیل
نظر رکی ہے کسی پہ جب سے، بنا ہوا ہوں وفا مسلسل
وفا کے بدلے مگر ملی ہے جفا مسلسل، سزا مسلسل
مناتا اتنا اگر خدا کو تو بار_ رحمت برستا مجھ پر
منا رہا ہوں انھیں مسلسل، ہیں پھر بھی مجھ سے خفا مسلسل
سمیٹ لاتی ہے تیری خوشبو نہ جانے لاکے کہاں سے گھر میں
ستانا تو نے تو چھوڑ ڈالا، ستا رہی ہے ہوا مسلسل
نہ کوئی خواہش رہی ہے باقی، نہ کوئی دل میں رہی تمنا
بغیر تیرے میں زندہ کب ہوں، ہے زیست میری قضا مسلسل
ابھی تو غل میں دبی ہوئی ہے، تھمے گا ہنگامہ اک نہ اک دن
سنے گا اس دن زمانہ سارا، میں دے رہا ہوں صدا مسلسل
کبھی شیاطیں کبھی جنوں کے، کبھی خود اپنے ہی دل کے ہاتھوں
بہک بہک کے ہی آدمی نے خدا سے کی ہے دغا مسلسل
طبیب تو ہے خدا نہیں ہے، شفا تو جاوید رب ہی دیگا
ہے فرض اتنا سا صرف تیرا بتاتے رہنا دوا مسلسل