نہرو نے کہا تھا کہ وقت ایک مرہم ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ جموں کشمیر کے باشندے سب کچھ بھلا کر بھارت کے ساتھ بخوشی رہیں گے لیکن نہرو کی یہ پیشین گوئی ایک طویل عرصہ گذرنے کے بعد بھی پوری نہیں۔ کیا کشمیری شہدائے جموں کی قربانیوں کو بھلا سکتے ہیں ۔ کیا وہ تہاڑ جیل کو بھول سکتے ہیں۔ کیا مقبول بٹ اور ان کے دو بھائیوں بھائی غلام نبی بٹ اور منظور احمد بٹ کو بھول سکتے ہیں۔ �آزادی کی جدوجہد میں جام شہادت پینے والے عظیم کشمیری رہنماء اشفاق مجید وانی، شیخ عبد الحمید، جمیل چوہدری، ڈاکٹر عبدالاحد گورو، ایڈوکیٹ جلیل احمد اندرابی، سید شبیر احمد صدیقی،بشارت رضا ، افضل گرو، اشرف قریشی کے بھائی الطاف قریشی اور دوسرے ہزاروں شہیدوں کی قربانیوں کو کون بھول سکتا ہے۔ بھارتی جبر اور وہاں کی عوام کو دئیے گئے معاشی فوائد کے باوجود کشمیری عوام اپنی جدجہد آزادی سے دستبردار نہیں ہوئے۔ کشمیریوں نے تقسیم کشمیر کو قبول کیا ہے اور نہ کبھی اسے قبول نہیں کریں گے۔ ریاست جموں کشمیرایک وحدت ہے اورکشمیری عوام اس کے حصے بخرے نہیں کرنے دیں گے اور اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یٰسین ملک، سید علی گیلانی، شبیر احمد شاہ، میر واعظ عمر فاروق اور دوسرے کشمیری رہنماؤں کی قیادت میں کشمیری عوام کی جدجہدکامیابی سے ہمکنار ہوگی۔
بھارت کی حکمت عملی کہ پاکستان کی افواج مغربی سرحد پر مصروف رہیں اسی لیے وہ سیز فائر لائن پر اکثر فائرنگ کرکے پاکستانی افواج کو الجھائے رکھتا ہے۔ بھارت کی یہ بھی پوری کوشش ہے کہ طالبان اور دوسری مذہبی شدت پسند جماعتوں کا پاکستانی عسکری قیادت کے ساتھ سمجھوتہ نہ ہوجائے کیونکہ ایسی صورت حال میں وہ شدت پسند بھارتی مقبوضہ کشمیر کا رخ کرسکتے ہیں۔ اسی لیے جب بھی معاملات بہتری کی طرف جاتے ہیں کوئی نہ کوئی انہونی ہوجاتی ہے۔ افغانستان میںISAF کے کمانڈر نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ بھارتی افغان گٹھ جوڑ کے باعث پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو معاونت اور سہولتیں میسر ہیں۔ بھارتی میڈیا یہ تاثر بھی پوری شدت کے ساتھ دیتا ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت اور حکومت کے درمیان سلامتی کے کئی اہم امور پر اتفاق رائے نہیں تاکہ غیر یقینی کی فضا پیدا کی جاسکے۔
تحریکِ آزادی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں لیکن یہ ضرور کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔ پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور بیس لاکھ جموں کشمیر کے مہاجرین آج بھی وہاں رہ رہے ہیں۔دونوں ایک اٹوٹ رشتے میں منسلک ہیں اور اُن کے دِ ل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ کشمیری خون اور پاکستان کی سفارتی حمایت ہے جس نے اس مسئلہ کو زندہ رکھا ہے اگرچہ سفارتی محاذ پر پاکستان کی حکومتوں نے کئی غلطیاں کیں اور بعض اوقات سستی اور ناکام حکمت عملی اپنائی لیکن پھر بھی مسئلہ کشمیر زندہ ہے اور کشمیری دنیا بھر میں اپنے غیر مشروط حق خود آرادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں حالانکہ برِصغیر کی تقسیم کے بعد کئی ریاستوں کے مستقبل کا مسئلہ تھا مگر آج لوگ جونا گڑھ مناور، حیدر آباد اور دوسرے کئی مسائل بھول چکے ہیں حیدر آباد جس نے اپنی آزادی اور خود مختاری کا اعلان کیا تھا اور یہ پاکستان اور بھارت کے بعد برِصغیر میں تیسرا ملک بنا تھا جس کے پاکستان میں مشتاق احمد سفیر تھے لیکن آج اْس کے کسی مسئلہ کا وجود ہی نہیں ۔ ایک مضبوط پاکستان اور خوشحال پاکستان ہی آزادی کشمیر کا ضامن ہوسکتا ہے ۔ بہت سے امور ایسے ہیں جن میں حکمت عملی کا ازر سر نو جائیزہ لینے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے سامنے بھارت کا اصل چہرہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کے سفارت خانوں کو اس سلسلہ میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔
جموں کشمیر پر اپنی قرادایں منظور کرنے کے بعد اب یہ اقوام متحدہ نے یہ ذمہ داری اپنے سر لے ہے۔ ریاست جموں کشمیر میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی موجودگی اور ابھی تک مسئلہ کشمیر کا ایجنڈے پر ہونا اس حقیقت کا مظہر ہے کہ اقوام متحدہ کشمیریوں کاسرپرست ہے لیکن ایسا سرپرست جو لمبی تان کر سو رہاہے۔ اس خوبیدہ سرپرست کو بیدا کرنا ہوگا جس کے لیے پاکستان کی وزارت خارجہ،آزاد جموں کشمیر کی حکومت، کشمیری سیاست دان اور بیرون ملک آباد کشمیریوں کا فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے آزادکشمیر کی حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہیے اور معائدہ کراچی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہر سال 13 اگست کو اقوام متحدہ نے جموں کشمیر پر اپنی پہلی قرار داد پاس کی اس دن دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے دفاتر کے سامنے پر امن مظاہرے کرکے انہیں یاد دلائیں کہ وہ نیند سے بیدا ہو اور اپنی قراردوں پر عمل درآمد کروائے۔ جہاں ایک بھی کشمیری ہو وہ اکیلا جا اقوام متحدہ کے دفتر میں یاداشت جمع کرائے۔ ہمیں کشمیر کے سرپرست کو جگانا ہوگا۔