علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیکر اُنس و محبت بنایا ہے ۔دنیا میں اس کیلئے کچھ خونی رشتے ہیں اور کچھ قلبی، قلبی رشتوں میں ایک عظیم رشتہ دوستی کا ہے ۔انسان فطرتاً دوست سے تمام معاملات میں تبادلہ خیال کر کے فرحت محسوس کرتے ہوئے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا ہے ۔ہم نے مسلمانوں کی باہمی ، دوستی ،بھائی چارگی اور محبت و مؤدت کے بارہ میں فوائد عظیمہ جمع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت بخشے اور ذریعہ ہدایت بنائے ۔آمین
باہمی دوستی کے اسباب:ایک مسلمان کے دل میں دوسرے مسلمان کی محبت اور دوستی پیدا ہونے کے چند اسباب ہیں ۔پہلا سبب حسن و جمال ہے کہ حسین انسان سے محبت اور دوستی کا خواہاں ہر حسن پسند شخص ہوتا ہے ۔اور اس کا دوسرا سبب مالداری ہے کہ مالدار شخص سے ہر دولت پسند شخص کو فطر ی طور پر محبت ہو جاتی ہے اور اس کا تیسرا سبب ہم وطنی ہے کہ ہم وطن دو اشخاص پر دیس میں فطری طور پر ایک دوسرے سے مانوس ہو جاتے ہیں اور ان میں محبت و اخوت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا چوتھا سبب ہم قوم ہونا ہے کہ ایک قوم کے اشخاص خونی تعلق کی بناء پر فطرتی طور پر ایک دوسرے کے ہمدرد بن جاتے ہیں اور اس کا پانچواں سبب پارسائی اور پاکبازی ہے کہ پار سا اور پاکباز انسان سے مسلمانوں کو قلبی کشش ہوتی ہے ۔
مذکورہ بالا سب قسم کی دوستیاں اور بھائی چارگیاں شرعاً محمود ہیں جبکہ وہ شرعی حدود وضوابط کے اندر ہوں لیکن آخری قسم کی دوستی شرع شریف کی نظر میں بہت عزیز اور پسندیدہ ہے ۔ نیک انسان سے دوستی دنیا و آخرت کے فوائد کے حصول میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے ۔ اور جب اس دوستی کی بنیاد محض رضائے الہٰی پر ہو تو پھر اس کے فوائد و ثمرات کا سلسلہ لا متناہی طوالت اختیار کر لیتا ہے ۔ ہم نے اس مختصر مضمون میں اسی جانب مسلمانوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے ۔
دوستی شرع شریف کی نظر میں:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔’’نہ اندھے پر تنگی ہے اور نہ لنگڑے پر مضائقہ اور نہ بیمار پر روک اور نہ تم میں سے کسی پر کوئی رکاوٹ کہ کھاؤ اپنی اولاد کے گھر یا اپنے باپ کے گھر یا اپنی ماں کے گھر یا اپنے بھائیوں کے یہاں یا اپنی بہنوں کے گھر یا اپنے چچاؤں کے یہاں یا اپنی پھوپھیوں کے گھر یا اپنے مامؤووں کے یہاں یا اپنی خالاؤں کے گھر یا جہاں کی کنجیاں تمہارے قبضہ میں ہیں یا اپنے دوست کے یہاں۔‘‘(پارہ 13رکوع14)
شان نزول :اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ صحابہ کرام حضور اکرم ﷺ کے ساتھ جہاد کو جاتے تو معذور صحابہ کو جو بوجہ عذ ر جہاد میں شرکت نہیں کر سکتے تھے اپنے گھروں کی چابیاں دے جاتے تھے کہ وہ ان کے گھروں کی دیکھ بھال رکھیں اور انہیں اجازت دے جاتے تھے کہ کھانے پینے کی چیزیں نکال کر کھائیں پئیں ۔ لیکن یہ حضرات اس خرچ کرنے میں بہت حرج محسوس کرتے تھے تو ان کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔(نور العرفان صفحہ571)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاں رشتہ داروں کو تفصیل سے ذکر فرمایا وہاں دوستوں کو بھی ذکر فرمایا اور دوستوں کو رشتہ داروں کے حکم میں رکھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرع شریف دوستی کے رشتہ کا بھی لحاظ کرتی ہے ۔
نیکوں کی دوستی کا آخرت میں فائدہ:اللہ تعالیٰ دوزخیوں کے احوال کے بارہ میں فرماتا ہے :’’وہ (کفار) کہیں گے اور وہ اس میں (یعنی دوزخ میں) باہم جھگڑتے ہو ں گے ۔ خدا کی قسم بے شک ہم کھلی گمراہی میں تھے جبکہ ہم تمہیں اللہ رب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے ۔ اور ہمیں نہ بہکایا مگر مجرموں نے تو اب ہمارا کوئی سفارشی نہیں اور نہ کوئی غمخوار دوست۔‘‘(پارہ19رکوع 9)
مفسر علاؤ الدین فرماتے ہیں:’’یہ بات کافر اس وقت کہیں گے جب فرشتے انبیاء او رمومنین گناہگا ہ دوزخی مسلمانوں کی شفاعت کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کی وجہ سے انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل فرمائے گا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’بلا شبہ کوئی شخص جنت میں ہو گا تو وہ کہے گا میرے فلاں دوست کا کیا حال ہے ؟ حالانکہ اس کا وہ دوست جہنم میں ہو گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کیلئے اس کے دوست کو جنت کی طرف نکال لاؤ ۔ سو جو باقی جہنمی ہوں گے وہ یہ کہیں گے کہ اب ہمارا کوئی سفارشی نہیں اور نہ کوئی غمخوار دوست ہے ۔ ‘‘(تفسیر خازن جلد 5)
اور مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں :حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم جہنمی کفار یہ جانتے ہوں گے کہ دوست جب نیکو کار ہو تو وہ نفع دیتا ہے اور غمخوار دوست جب نیکو کار ہو تو وہ سفارش کرتا ہے ۔(تفسیر ابن کثیر جلد 3)
احادیث مبارکہ :نیکو کار سچے دوستوں کے حالات کے متعلق چند احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ :’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا میری بزرگی کے سبب سے جو لوگ ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں وہ کہاں ہیں ؟ آج میں انہیں اپنے سایہ میں بساؤں گا ۔ آج میرے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ۔ رواہ مسلم‘‘
انہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ ایک شخص اپنے دوست بھائی کی زیارت کیلئے دوسری بستی کی طرف نکلاتو اللہ تعالیٰ نے اس کے راستہ میں ایک فرشتہ بٹھادیا ۔فرشتے نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے ؟ اس نے کہا۔ میں اس بستی میں رہنے والے ایک دوست بھائی کی ملاقات کا ارادہ رکھتا ہوں ۔فرشتے نے پوچھا ۔کیا اس شخص نے تجھ پر کوئی احسان کیا ہے جس کو تم پالنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا نہیں بلکہ میں اس سے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے محبت رکھتا ہوں ۔ فرشتے نے کہا ’’تو میں اللہ کا بھیجا ہوا (فرشتہ ) ہوں اور سن لے کہ جس طرح تو نے اس شخص سے اللہ تعالیٰ کیلئے محبت کی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کا تو محبوب بن گیا ہے ۔‘‘(رواہ مالک ، مشکوٰۃ)
اور ترمذی شریف کی روایت میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :میری عظمت کے سبب ایک دوسرے سے محبت رکھنے والے لوگ نورانی منبروں پر ہوں گے ۔ ان پر نبی اور شہید رشک کریں گے ۔ (مشکوٰۃ جلد2)
حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں جو نہ نبی ہیں اور نہ شہید ان پر انبیاء و شہداء قیامت کے روزان کے اس مرتبہ کی وجہ سے رشک کریں گے جو انہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک حاصل ہو گا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہﷺ آپ ہمیں بتائیں کہ یہ لوگ کون ہوں گے ؟ فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی محبت کے باعث ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے۔ بغیر اس کے کہ ان کی آپس میں کوئی رشتہ داری تھی یا وہ ایک دوسرے کو مال دیتے تھے ۔ ‘‘اللہ تعالیٰ کی قسم ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور وہ نورانی منبروں پر ہوں گے ان کو کوئی خوف نہیں ہو گا جب لوگ خوفزدہ ہو ں گے اور وہ غمگین نہیں ہوں گے جب لوگ غمگین ہوں گے ۔پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ خبردار بے شک اللہ تعالیٰ کے اولیاء پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ (مشکوٰۃ جلد 2)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ تو دوستی اور سنگت صرف مومن سے کر اور تو کھانا کھلا پرہیز گار شخص کو ۔‘‘(ترمذی، مشکوٰۃ )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :’’جب کوئی مسلمان اپنے بیمار مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے یا تندرست مسلمان بھائی کی ملاقات کیلئے جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔تیری زندگی دنیا و آخرت میں اچھی ہو گی اور تیرا کھانا اچھا ہوا اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنالیا ۔ ‘‘ (ترمذی ، مشکوٰۃ )
انہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مرد اپنے جگری دوست کے دین پر ہوتا ہے پس اسے دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنا جگری دوست کسے بنا رہا ہے ۔ ‘‘(مشکوٰۃ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ اگر دو شخص ایک دوسرے سے اللہ کی رضا کیلئے محبت رکھتے تھے ان میں سے ایک مشرق میں تھا اور دوسرا مغرب میں تو قیامت کے روز اللہ ان دونوں کو جمع فرمائے گا اور کہے گا یہ وہ شخص ہے جس سے تو میری رضا کیلئے محبت رکھتا تھا ۔ (مشکوٰۃ)
حضرت ابورزین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’اے ابو رزین کیا تجھے علم نہیں کہ مرد جب اپنے گھر سے اپنے دوست بھائی کی ملاقات کے لئے نکلتا ہے تو اس کے ہمراہ ستر ہزار فرشتے ہو جاتے ہیں اور وہ یہ دعا مانگتے ہیں ۔اے ہمارے رب اس نے تیری رضا کیلئے ملاقات کا ارادہ کیا تو اسے بخش دے ۔ سوا گر تو اپنے بدن کو اس کام میں استعمال کر سکے تو استعمال کر۔ ‘‘(مشکوٰۃ )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’بلا شبہ جنت میں یا قوت کے بنے ہوئے ستون ہیں ان پر سبز موتی سے بنے ہوئے کمرے ہیں جن کے دروازے کھلے ہیں وہ اس طرح چمکتے ہیں جس طرح چمکدار ستارہ، صحابہ نے عرض کیا ۔یا رسول اللہ ﷺ ان کمروں میں کون سے لوگ رہیں گے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو اللہ کی رضا کیلئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ایک دوسرے کے پاس اٹھتے بیٹھتے ہیں اور اللہ کی رضا کیلئے ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھتے ہیں ۔ ‘‘(مشکوٰۃ)
مسلمان ان احادیث مبارکہ کو پڑھیں اور نیکو کار مسلمانوں سے اللہ کی رضا کیلئے دوستی اور تعلقات قائم کرنے والوں کے فضائل جانیں اور عمل کی کوشش کریں ۔اللہ تعالیٰ توفیق عمل بخشے آمین
بکثرت مسلمانوں سے دوستی پیدا کرنا شرعاً مقصود ہے:شرع شریف کو یہی مقصود ہے کہ نیکو کار مسلمانوں کی باہمی دوستیاں اور تعلقات اللہ کی رضا کیلئے بکثرت قائم ہوں تاکہ اسلامی معاشرہ پر سکون ہو ۔ چنانچہ:
کتاب ربیع الابرار میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :دوست بھائی زیادہ بناؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ حیاء فرمانے والا کرم کرنے والا ہے وہ اپنے بندے سے حیاء فرماتا ہے کہ وہ اسے اس کے بھائیوں کے درمیان قیامت کے روز عذاب دے ۔(نزہۃ المجالس جلد 2)
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قول ہے :لوگوں میں سب سے زیادہ عاجز و ہ شخص ہے جو دوست بھائی بنانے سے عاجز رہے ۔ (نزہۃ المجالس جلد2)
دوستوں کی خدمت اور خیر خواہی کا اجر:دوستوں کی خدمت کے بارہ میں چندروایات ملاحظہ ہوں :
شیخ عبد الرحمن صفوری فرماتے ہیں ۔میں نے کتاب الوجوہ المسفرۃ میں یہ لکھا ہوا دیکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب نے حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہما سے پوچھا آپ کیا کھانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا ستو اور کھجور ۔ انہوں نے انہیں یہ چیزیں کھلا کر سیر کر دیا ۔ اس کی خبر نبی کریم ﷺ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا :’’جب کوئی شخص اپنے دوست بھائی سے یہ کام کرتا ہے حالانکہ وہ نہ جزا ء کا ارادہ رکھتا ہے اور نہ شکریہ کا تو اللہ تعالیٰ اس کے گھر کی طرف فرشتے بھیجتا ہے جو ایک سال تک اللہ کی تسبیح تہلیل تکبیر اور استغفار پڑھتے رہتے ہیں ۔جب سال پورا ہوتا ہے تو ان فرشتوں کی عبادت کی مثل عبادت اس کے نامۂ عمال میں لکھ دی جاتی ہے اور اللہ کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اس بندے کو جنت الخلد میں جنت کے پاکیزہ کھانوں سے کھلائے ۔ ‘‘(نزہۃ المجالس جلد2)
نبی اکر م ﷺ نے فرمایا :’’جو بندے اللہ کی رضا کے لئے باہمی محبت رکھتے ہیں جب ان میں سے ایک دوسرے کے سامنے آتا ہے اور وہ اس سے مصافحہ کرتا ہے اور وہ دونوں نبی مکرم ﷺ پر درود شریف پڑھتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے پہلے ان دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔ ‘‘(نزہۃ المجالس جلد2)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :’’جو شخص کسی حاجت میں اپنے دوست بھائی کے ساتھ چلتا ہے پھر اس کی حاجت روائی میں خیر خواہی کرتاہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے درمیان اور دوزخ کے درمیان سات خندقیں پیدا کر دیتا ہے ہر ایک خندق دوسری سے اتنی مسافت پر ہے جتنی مسافت پر آسمان اور زمین ہیں۔‘‘(نزہۃ المجالس جلد 2)
نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں :’’جو شخص اپنے دوست بھائی کی عزت اس کی عدم موجودگی میں بچاتا ہے اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہے کہ وہ اسے دوزخ سے آزاد کردے۔‘‘(نزہۃ المجالس جلد 2)
بروں کی دوستی نقصان دہ ہے:شرع شریف نے جہاں نیکوں کی دوستی کے فوائد بیان کئے وہاں یہ بھی بتایا کہ بروں کی دوستی نقصان دہ ہوتی ہے ۔چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’اچھے دوست اور برے دوست کی مثالیں کستوری اٹھانے والے اور بھٹی پھونکنے والے کی مثالوں جیسی ہیں ۔ کستوری اٹھانے والاتجھے مفت کستوری دے دے گا یا اس سے کستوری خرید لے گا یا تو اس سے خوشبو پائے گا اور بھٹی جلانے والا یا تو تیرے کپڑے جلائے گا یا تو اس سے بدبو پائے گا۔‘‘(بخاری و مسلم)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہو ں گے مگر پرہیز گار۔‘‘(پارہ 25، رکوع 12)یعنی دنیا کی دوستیاں قرابتیں قیامت میں دشمنی میں تبدیل ہو جائیں گی مومن باپ کا فر بیٹے کا دشمن ہو جائے گا بلکہ کافر کے اعضاء بھی اس کے دشمن ہو جائیں گے اور اس کے خلاف گواہی دیں گے ۔ دنیا فانی ہے تو دنیا کی دوستی بھی فانی ہے ۔نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومنوں کی قرابت داریاں اور دوستیاں قیامت میں کام آئیں گی ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب دو مومن دوستوں میں سے ایک مر جاتا ہے تو وہ بارگاہ الہٰی میں عرض کرتا ہے ۔ مولا میرا فلاں دوست مجھے اچھے کام کا مشورہ دیتا تھا اور برے کام سے روکتا تھا ۔ مولامیرے بعد اسے گمراہ نہ کرنا ۔اس کا ایسا ہی اکرام فرمانا جیسا تو نے میرا اکرام فرمایا اور دو کافر دوستوں سے جب ایک مرجاتا ہے تو وہ عرض کرتا ہے یا رب فلاں شخص مجھے اچھے کاموں سے روکتا اور بری باتوں کا مشورہ دیتا تھا تو اسے ہلاک فرما ۔ غرضیکہ قیامت سے پہلے ہی یہ محبتیں یہ عداوتیں شروع ہو جاتی ہے ۔ (خزائن العرفان و روح البیان)
لہٰذا دوستی پاک صاف اور اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے رکھی جائے تو دنیا میں کامیابی اور آخرت میں سر بلندی کی علامت ہے ۔الحمد للہ یہاں تک جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس سے دوستوں کے حقوق و فرائض پر بقدر کفایت روشنی پڑ گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ توفیق بخشے ۔