کسی بیماری کا نام لے لیں مورنگا اسکا علاج کر دے گا۔اس میں بہت پوٹینشل ہے۔پہلے لوگ صرف اس کے پھول پکا کر کھاتے تھے۔ اسلیے کہ اسکا زائقہ اچھا ہوتا ہے لیکن اس کی جڑیں پتے اور بیج سب کے خواص الگ الگ ہیں۔اس کی جڑوں کا اچار ڈالا جاتا ہے۔اس پر میں نے سن دو ہزارسات2007 میں کیلیفورنیا میں کام شروع کیا تھا اور تب سے اِس کو متعارف کرا رہا ہوں۔اس وقت میری کوششوں سے پاکستان میں کوئی سو سے زیادہ اس پر تھیسسس لکھے جا رہے ہیں۔جو بھی مورنگا پر ایک دفعہ کام کر لیتا ہے پھر اُس کے گُن گاتا ہے اور مورنگا ایمبیسیڈر بن جاتا ہے۔میں نے اس پر گاؤں گاؤں جا کر کام کیا ہے ۔لوگوں کو اسکی اہمیت کا شعور دیا ہے۔شروع شروع میں تو لوگ اس طرف آتے ہی نہیں تھے۔پھر اس کے بعد کسانوں کو جب پتہ چلا کہ اس کے پتوں کا نچوڑ فصلوں پر کیڑے مار اور ٹانک اسپرے کا کام کرتا ہے تو وہ اس کی جانب مائل ہوئے۔یہاں یو نیورسٹی میں میری کلاس میں زیادہ تر لڑکیاں ہی اسٹوڈنٹ ہیں۔میں نے انہیں بتایا کہ اس کے پتے پانی میں ابال کر اس پانی سے منہ دھوئیں۔اس سے رنگت صاف ہوتی ہے اور منہ کے دانے بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ا سکے بعد یونیورسٹی میں جتنے مورنگا کے پودے ہیں جہاں تک لڑکیوں کے ہاتھ پہنچتے تھے وہاں تک پتے صاف ہو چکے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ یہ پودا ٹروپیکل tropical علاقوں میں تو اگایاجا سکتا ہے لیکن برف باری والے علاقوں اور ٹنڈرا کلائیمیٹک زون Tundra climatic zone میں مشکل ہے۔لیکن ان ڈورin door لگایا جا سکتا ہے۔
پچھلے سال منیلا میں فرسٹ انٹر نیشنل مورنگا سمپوزیم منعقد کیا گیا تھا۔جس میں دنیا بھر سے مورنگا پہ کام کرنے والے سائنسدانوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ جبکہ دو پاکستانیوں کو بھی مدعو کیاجن میں میں بھی شامل تھا۔ جبکہ دوسرے پاکستانی ڈاکٹر فاروق انور کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ہم دونوں سمیت دنیا کے 12سائنسدانوں کو مورنگا چیمپیئن کا اعزاز دیا گیا جو میرے لئے اور پاکستان کے لئے فخر کی بات ہے۔اس وقت آسٹریا،نکارا گوا اور سینٹرل امریکہ میں مورنگا پراجیکٹس پر کام ہو رہا ہے جس میں مورنگا کے پتوں سے بائیو گیس بنا کر پورے یورپ میں سپلائی کی جائے گی۔اس پراجیکٹ میں ڈاکٹرفوائڈل نکارا گوا سے اور اس کے علاووہ جرمن فرنچ اور مختلف یورپئین ماہرین کام کر رہے ہیں۔مورنگا سے جانوروں کا چارہ اور پولٹری کی خوراک بھی تیار کی جا رہی ہے۔جبکہ کلر والی زمین پر بھی اسکی کاشت کی جا رہی ہے۔جہاں دوسری فصلیں نہیں اگ سکتیں۔
میرا ایک اور شوق کچن گارڈننگ بھی ہے ۔میں اِس کے لئے بھی لوگوں میں شوق ابھارنے کے لئے کام کر رہا ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر شہزادنے بتایا کہ میں اس وقت پندرہ بیس ممالک میں جا چکا ہوں لیکن ابھی تک یورپ کے وزٹ کا چانس نہیں ملا۔ان ممالک میں امریکہ ،مصر، شام، سعودی عرب ،شام، چین، دبئی، بنگلہ دیش،کوریا، فلپائن، ہانگ کانگ اورتھائی لینڈ شامل ہیں۔ترقی کے لحاظ سے سب سے زیادہ کیلیفورنیا مجھے پسند آیا لیکن جس قدر خوبصورت خوشحال اور مطمئن لوگ ملک شام کے دیکھے اور کہیں نہیں دیکھے۔وہاں ہر کوئی پیار سے بولتا اور ملتا تھا جو آجکل کھنڈر بنا ہوا ہے اس سے زیادہ خوبصورتی اور ہریالی میں نے کہیں نہیں دیکھی۔لائف اسٹائل کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری روزمرہ کی زندگی کی مینجمنٹ ٹھیک نہیں۔انڈسٹریز اس قدر بنا رہے ہیں مگراپنی صحت کے لیے ٹائم نہیں ہے۔ساری زندگی روٹی کے چکروں میں گزر جاتی ہے پھر بچوں کی شادیوں میں ۔میں یہ کہتا ہوں کہ وہ کام کرو جو آسانی سے کر سکتے ہو وہ کام نہ کرو جو نہیں کر سکتے اس کام کے لیے اسٹریس نہ لو۔مزاج کو لائٹ رکھیں۔کام میں سنجیدگی اختیار کریں۔ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ ہم لوگ روزمرہ زندگی میں سنجیدہ اور کام میں غیر سنجیدہ ہوتے ہیں۔کام سے مذاق کرتے ہیں۔جبکہ زندگی ہلکی پھلکی سی بسر کرنی چاہئے اور سادہ غذاء اور ورزش کو زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہئے ۔
اپنے فری ٹائم کے بارے میں انہوں نے بتایاکہ میری یہ خواہش ہوتی ہے کہ میں فارغ ٹائم میں باہر نکل جاؤں کسی سے نہ ملوں بازاروں میں گھوموں پھروں بسوں ویگنوں میں بیٹھ کر۔اورفیصل آباد کے بازاروں میں جا کر دیکھوں کہ کیا ہو رہا ہے۔میرے پسندیدہ رائٹرز میں مزاح نگار اورناول نگار مشتاق احمد یوسفی اور مستنصر حسین تارڑشامل ہیں۔