عاقل میں خود کو سمجھا مگر سرپھرا ہوں میں

غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
 

عاقل میں خود کو سمجھا مگر سرپھرا ہوں میں
میں عمر بھر یہی نہیں سمجھا کہ کیا ہوں میں
 

دعویٰ میں کیسےکر دوں کوئی پارساہوں میں
سچ  تویہ ہے، برا نہیں سب سے برا ہوں میں

نکلا تھا برسوں پہلے کسی کی تلاش میں
چسپاں یہ اشتہار ہیں اب گمشدہ ہوں میں

حاکم یہ کہتا پھرتا ہے سنتا ہے وہ مری
میں لاکھ چیختا رہوں  بے آسرا  ہوں میں

منصف نے جانے کس کی سنی دل کی چھوڑ کر
دل اسکا چیختا رہا کہ بے خطا ہوں میں 

احباب بھی عزیز بھی شامل ہیں بھیڑ میں
حملہ ہراک طرف سے ہے تنہا کھڑا ہوں میں

انسان کا یہ حال کہ ہے شرک پر مصر
کہتا ہے بار بار خدا کہ خدا ہوں میں 

رہتی ہے دشمنوں کی ہدایت کی آرزو
جاوید انتقام سے ناآشنا ہوں میں

 

 
اپنا تبصرہ لکھیں