خدائی ہے‘‘۔ ملاحظہ کریں خصوصی طور سے ’’ ذکر ایک مشعل بہ کف اور قندیل بہ چشم کا‘‘
اب میں اپنے ان افسانوں کا ذکر کروں گی جن کو جرأ ت مندانہ اور انوکھے تجربے کہا جاسکتا ہے۔ عجیب وغریب ، فرحت بخش ، زندگی بخش اور مرہم ساز۔ً حجاب امتیاز علی کی طرز پر لکھے ہوئے طرحی افسانے۔ ایک شعوری کوشش کے بجائے تفنّن طبع کا ذریعہ ، فرحت بخش سرگرمی، ایک ذہنی ماحول کی تخلیق ۔ حالات کی سنگینی سے خود کومحفوظ رکھنے کا ذریعہ ۔ فطرت کی گود میں ، (لمحاتی طور سے ہی سہی)، پناہ لینے کی سعی۔ ایک مراقبہ ۔ یہ اردو میں ایک منفرد تجربہ ہے۔ طرحی غزل تو ہوتی ہے طرحی افسانہ کبھی نہ سنا۔ اردو کے کلاسیکی ادب اور تصوف کامطالعہ کیے ہوئے سامعین و قارئین(جن میں حِسِّ مزاح بدرجۂ اتم موجود ہے) ان افسانوں سے محظوظ بھی ہوئے اور متاثر بھی۔ شہناز کنول غازی اور صبیحہ ناز لاری ان’’تفریحی‘‘ افسانوں کی اولیّن سامع تھیں۔ خان جمیل (ایک غیر معروف صاحب علم اور صاحب ذوق ناقد) نے خط کے ذریعہ اپنی مخلص رائے کا اظہار کیا جس سے مجھے ان افسانوں کی اہمیت اور معنویت کا احساس ہوا( ان کی رائے آخر میں دی گئی ہے) ۔ دبئی میں نجم الحسن رضوی ( جن کا نام تعارف کا محتاج نہیں ۔ اچھے افسانہ نگار، عمدہ صحافی، طنز ومزاح نگار) نے خلوص کے ساتھ ان افسانوں کی پذیرائی کی اور کروائی۔ مشتاق صدف نے ’’ شاعر‘‘ کے گوشہ میں ان افسانوں( اور دیگر افسانوں ) کی پُرزور وکالت کی، کڑی حمایت کی ۔ افسانہ سے ان کو واقعی دلچسپی ہے۔
کم عمری سے ہی حجاب سے متاثر رہی تھی عجب پُر اسرار، ماورائی، طلسماتی ورومانی (لفظ رومانی کو انگریزی کی رومانی تحریک کی صفت کے مفہوم میں لیا جائے نہ کہ عامیانہ مفہوم میں )ماحول تخلیق کرتی ہیں اپنے افسانوں اور ناولوں میں۔ میں نے۱۹۹۸ء میں اُن کو دوبارہ پڑھا(۱۲ کتابیں ان کی بہ یک وقت دستیاب ہوگئی تھیں)۔ ایک خوابناک ماحول میں پہنچ جاتی، تفکرات سے نجات مل جاتی۔ ’’تصویربتاں‘‘ ، ’’ظالم محبت‘‘ ، ’’کالی حویلی‘‘، ’’صنوبر کے سائے ‘‘، ’’یہ بہاریں یہ خزائیں‘‘ اور۔ ’’ڈھلتی شامیں‘‘ ( یہ افسانہ کم سِنی میں پڑھ کر مسحور ہو چکی تھی)۔ان کی تحریروں میں دینی فکر، مذہبیت، زندگی سے، انسانیت سے شدید محبت، فطرت سے، خالق کائنات سے عشق، گہرا سماجی شعور، درد مندی، ساتھ ہی حسّ مزاح۔ ایک آفاقی پیغام نظرآیا۔ امن عالم کا پیغام۔ پسندیدگی اتنی بڑھی کہ خیالآیا کہ ان کی طرز پر ’’ طرحی ‘‘افسانہ لکھوں ( کیوں کہ نقّالی میری روش نہیں) جو تجربہ تفریحاً کیا گیا تھا وہ پورے سات سال بعد منظر عام پرآیا( ماہنامہ ’’ شاعر‘‘ میں شائع ہوا۔ )پس وپیش اس لیے رہا تھا کہ تفنّنِ طبع کے لیے لکھی گئی نجی تحریر ہے اس پر نہ معلوم کیا ردّ عمل ہو۔ بہر حال قصیدہ خوانیاں ہوئیں کچھ پر’’کلامِ نرم ونازک بے اثر‘‘ بھی ہوا۔ کچھ افسردہ چہرے بھی کھلے جو کہ افسانوں کا بنیادی مقصد تھا۔ ساتھ ہی لمحۂ فکر یہ عطا کرنا تا کہ لوگ کچھ تو ’’غور وفکر ‘‘ کریں۔
کچھ نئے اور انوکھے کی دُھن میں ایک اور منفرد اوردلچسپ تجربہ یعنی’’ افسانہ پیکر‘‘ناول ’’جنگل کی آوز‘‘اور ’’صنوبر کے سائے تلے‘‘۔لفظ ’’ناول‘‘ پر اپنی مختصر تحقیق کے تحت کہنا چاہوں گی کہ اس لفظ کے لغوی معنی کے مطابق چند تاریخی ناولوں( مثلاً شرر کا ’’فردوس بریں‘‘ ) اور معروف خواتین ناول نگاروں کے رومانی ومعاشرتی ناولوں کے ماسوا(جن میں’’ناول ‘‘ کے لغوی معنی کے مطابق مہجور جوڑوں کا ملاپ ہوتا ہے) اردو میں ناول لکھے ہی نہیں گئے( جو لکھے گئے ان کوکوئی دوسرا بھلا سا نام دیا جاسکتا ہے)۔ ان خواتین ناول نگاروں کے ناولوں میں جو نام سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے وہ جمیلہ ہاشمی کا ’’ دشت سوس‘‘ ہے جس میں مہجور جوڑے کا روحانی ملاپ ہے۔ ان خواتین ناول نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے ان میں جو ناول مجھے ذاتی طور پر زیادہ پسند رہے ہیں وہ حجاب امتیاز علی کا ’’ ظالم محبت‘‘، رفیعہ منظور الامین کا’’ عالم پناہ‘‘ اور شہناز کنول کا ’’شہابی‘‘ وغیرہ۔۔۔مہجور جوڑوں کے روحانی ملاپ کی وجہ سے ۔ کہ عقد جوا گر’’سرودِ حیات ‘‘ ہے تو وہ روحانی ہم آہنگی کی وجہ سے ورنہ تو۔۔۔)
لفظ ناول کانقط�ۂ آغاز قرون وسطیٰ کے تخیّلی افسانوں(Romances) میں ملتا ہے جن کا موضوع عشق اور مہم جوئی ہو اکرتا تھا اور جن کی جڑیں قدیم یونان میں دوسری اور تیسری صدی قبل مسیح میں تخلیق کئے گئے طویل بیانیہ Romances میں پیوست ہیں جو مہجور جوڑوں کی روئداد اور پھر ان کے ملاپ کے موضوع پر مبنی ہوتے تھے مثلاً ہیلو ڈورس کا رُومینس Ethiopica- ، بوکاشیوکا ڈیکا میرنDecameran نثر میں ایسے تخیّلی افسانوں کی پہلی مثال ہے۔ اطالوی میں ایسے افسانے ناویلا کہلائے یعنی انوکھے ، نرالے اور حقیقی زندگی سے ہٹے ہوئے۔ ویبسٹر۔ Webster ( جس نے اپنی انگریزیگے)آج کل ‘‘ اور ’’ تشکیل‘‘ ( کراچی) میں بھی’’ غار‘‘ شائع ہوا۔ ( احمد ہمیش نے ’’تشکیل‘‘ میں میرے مجموعہ پر مثبت تبصرہ بھی کیا) لکھنؤ میں صبیحہ ناز لاری( جو دینی فکر سے مزّین بہترین مقرر ہیں، اردو اور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ کئے ہوئے ہیں اچھی ادیبہ ہیں افسانہ نگار ، مضمون نگار، ناقداور میری ہم نوا وہم نفس) نے خواتین ادیباؤں پر مشتمل ایک سیمنار لکھنؤ میں کیا اس میں انہوں نے مجھے بھی مدعو کیا۔ تب وہاں بھی میں نے یہی افسانہ (’’غار‘‘) پیش کیااور سامعین کے درمیان محصور ہوئی۔ بہرحال افسانہ کے میدان میں پندرہ سال بعد میری واپسی خاصی دل خوش کن تھی( گویا اپنے گھر واپسی ) لیکن دوڑ میں پچھڑ گئی( ویسے بھی دوڑ میں بچے ہی شریک ہوتے ہیں ) خلیل الرحمن اعظمی مرحوم کا شعر ہے
یاروں نے خوب جا کے زمانے سے صلح کی
میں ایسا بد دماغ یہاں بھی پچھڑ گیا
لیکن اس سے ایک بڑا فائدہ یہ ہو اکہ ’’ افسانہ نگار‘‘ کا ٹھپہ لگنے سے با ل بال بچی۔ اور سجاد ظہیر صاحب کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی۔
’’نجمہ میں بڑا ادیب بننے کے جراثیم ہیں ‘‘اور یقیناًہمہ جہت ’’ بڑا ادیب ‘‘ ہو نا فقط یک جہت ’’ افسانہ نگار‘‘ ہونے سے کہیں زیادہ اہمیت کاحامل ہے( اور یہ بات میں اعتماد سے کہہ رہی ہوں )۔
۱۹۹۹ مہجور جوڑے کے ( روحانی) ملاپ کی وجہ سے ناول کہا ہے مجھے نجی طور سے پسند ہے۔ اس کو میں نے خون جگر سے لکھا ہے۔ اس پر سید حامد صاحب کی رائے کو میں حرف آخر سمجھتی ہوں۔ وہ تنقید کے اصل منصب سے پوری طرح واقف ہیں۔
اپنی تخلیقات کے سلسلے میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ ان کے پیچھے فقط خلوص ہے، خون جگر کی آمیزش ہے ۔ یہ حق کی تلاش ہیں خود اپنی تلاش ہیں ۔ یہ صحیح معنوں میں ترقی پسند اور جدید ہیں کیوں کہ ان کا رشتہ قدیم سے بہت گہرا ہے۔ ان میں مختلف علوم کا انجذاب ہے( ان میں اساطیر بھی ہیں۔ اخلاق بھی، تصوف اور نفسیات بھی ہے اور فلسفہ ، تاریخ اور ماقبل تاریخ بھی) ان میں ’’رومانیت کی زیریں لہریں ‘‘ہیں۔ ان میں اعلی انسان کا تصور ہے اور یہ آفاقی عشق سے لبریز ہیں۔
ادب کا مقصد انتہائی عظیم ہے( نہ انعام و اکرام ، نہ شہرت اور نہ ‘recognition’ ۔۔۔۔ادب اور انسانیت کی خدمت اپنے آپ میں سب سے بڑا انعام ہے ۔ ادب سارے علم کی روح ہے، زندگی کی تشریح ہے، تعبیر ہے۔ زندگی کو سنوارنا، اسے اوپر اٹھانا، تہذیب نفس ، شخصیت سازی ہی اس کا اصل مقصد ہے اور ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی جمالیاتی حظ اور سرشاری کی کیفیت پیدا کرنا جوزبان پر قدرت اور اسلوب کی خوبصورتی کے بغیر ممکن نہیں حسن الوہی صفت ہے اس لیے سرشاری پیدا کرتا ہے۔ اس کے بر عکس سوچنا ادبی بددیانتی ہے۔ ادب کو سستی شہرت اور حصول زر کا وسیلہ ہرگز نہ ہونا چاہیے ۔ ہوس زندگی کوبدصورت بنادیتی ہے جن کے مقاصد بلند ہوتے ہیں ، جن کی نگاہیں آسمان کی رفعتوں پر رہتی ہیں وہ خلوص سے، خاموشی سے کام کرتے ہیں، خود نمائی اور شہرت کی خواہش اور کوشش عدم تحفظ، خود اعتمادی کے فقدان اوریوں کمزور شخصیت کی دلیل ہے۔
میر امقصد یہ ہے کہ آپ میرا مافی الضمیر سمجھیں میرے خلوص پر یقین کریں ادب کا اصل مرتبہ سمجھیں اور اس کے ذریعہ موجودہ زوال پذیر معاشرہ کو بدلنے کی کوشش کریں، انقلاب لائیں اپنی تحریروں کے ذریعہ وقت کے دھاروں کا رخ موڑدیں ۔ ایک خوبصورت ، صحت مند معاشرہ کی تشکیل کریں جس میں مجرم دندنانے نہ پھریں، جس کی بنیاد اعلیٰ انسانی اقدار پر ہو ایسا معاشرہ جس میں ظلم ، بے ایمانی اور ناانصافی نیست ونابود ہو جائیں، جس میں نیک ، مخلص اور ایماندار متنفّس عزت اور سکون سے جی سکیں ، حقداروں کو ان کاحق ملے، ان کو فریب اور دھوکہ نہ دیا جاسکے، ان کے وجود سے لہو نہ ٹپکے، ان کی جڑیں نہ کاٹی جائیں۔ اور ایسا معاشرہ آپ قلم کے زور سے قائم کریں۔ ’’ قلم گوید کہ من شاہ جہانم‘‘ ۔۔۔۔ قلم جو سب سے زوردار ہتھیار ہے۔ کہانیاں کہیں۔ کہانیاں سنیں کہ کہانی سنی ہی جانے والی چیز ہے( دوست نوازی کے تحت منعقد کیے گئے سیمناروں سے خود کو محفوظ رکھیں) ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی عزت نفس اور شخصیت اور کردار کی حفاظت کریں۔
اور اب میں اپنے پچھلے افسانوی مجموعہ’’پانی اور چٹان‘‘ کے تعارف کے آخر میں کہی گئی اپنی ایک بات کو، ایک فقرہ کے اضافے کے ساتھ، دوہرانا چاہوں گی جویوں تھی :
’’اور راقم الحروف یہ وعدہ کرتی ہے، دنیا کے سارے قلم کاروں سے، کہ اگر عالمی سطح پر آپ نے ایک مثالی معاشرہ قائم کردیا تو وہ قلم رکھ دے گی اور فقط ایک گوشۂ تنہائی میں ، ایک چھوٹے سے حجرے میں،جس کے چہار سو ، پھول کھلتے ہوں، پہاڑوں کے سلسلے ہوں، جھرنے گیت گاتے ہوں، طیور نغمہ ریزی کرتے ہوں ہوائیں گنگناتی ہوں وہ انتہائی مسرور و شاداں ، مطمئن اور پُرسکون ہوگی اور کوئی اس کا نام بھی نہ جانتا ہوگا کہ وہ گم نام ہی رہنا چاہتی ہے ۔۔۔!‘‘
ختم شُد