مِیراث

’’سواری آئی ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
کہاروں نے ڈیوڑھی میں ڈولی رکھی اور پکار کر کہا۔ وہ گھبراگئی۔۔۔۔ہائے اﷲ مصیبت آگئی۔ نہ جانے کون بیوی ہیں۔۔۔ اگر منجھلی چچی ہوئیں تو۔؟
منجھلی چچی سے اس کی گھبراہٹ بے وجہ نہیں تھی۔ جب بھی وہ آتیں گڑے مُردے اکھیڑ ے جاتے،طعن تشنع کی باتیں ہوتیں کسی کی ساس کوسی جاتیں تو کسی کی جٹھانی یا دیورانی کے پھوہڑپن کو باتوں کا موضوع بنایا جاتا۔ رشتے بھی جوڑے جاتے۔ ۔۔۔۔ ان کا خیال تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم غیر ضروری ہے اس لیے کہ لڑکیوں کا چال چلن خراب ہوجاتا ہے اور وہ گھرداری کی اہل نہیں رہتیں۔۔۔۔۔اور وہ اس کی ماں کونت نئے قصّے سنایا کرتیں۔
’’ ای جو وہ ذاکرہ ہے نا اس کی بھنج بہو کی بیٹی جس کو اس نے لاڈ پیار میں پڑھایالکھایا آوارہ ہوگئی ہے۔ پردہ چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔جانے کتنے مردوں سے دوستی ہے اس کی۔‘‘۔۔۔ اس کی ماں بھی ہاں میں ہاں ملادیتیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ دل ہی دل پیچ و تاب کھاتی رہتی اس لیے کہ اس کو واقعی علم سے گہری دلچسپی تھی۔۔۔۔ اونھ ۔۔۔۔۔ جیسے سبھی لڑکیاں تو پڑھ لکھ کر خراب ہوجاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ شفیقہ بھی توتھی آخرَ سناہے تعلیم مکمل کرکے اب کہانیاں لکھتی ہے۔۔۔۔۔۔ رائٹر ہے۔۔۔ اب یہ توہیں ہی اُجڈ انہیں کون سمجھائے۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں کڑھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔بولنے کی اجازت تھی ہی نہیں۔یونہی گھٹن ہی گھٹن تھی۔ آٹا گوندھتے میں نگاہیں اٹھاکر اُس نے دیکھا۔ بجائے منجھلی مومانی کے بڑی چچی ڈولی سے اتر کر ، امرود کے درخت کے سائے تلے سے گذرتی ہوئی گھر میں داخل ہوئیں۔
’’ سلام چچی‘‘ اس کے منھ سے نکلا
’’ جیتی رہو بیٹی خوش رہو۔۔۔ ای نعیمہ ماں کہا ں ہے؟‘‘
اسی وقت اندر کے دالان سے نکل کر اس کی ماں صحن میں آگئیں۔۔۔ ۔ صبح کا وقت تھا۔ عقب والے کمرے کے پاس چار پائی بچھی تھی چچی اسی پر بیٹھ گئیں۔
’’سلام بھابھی‘‘ اس کی ماں نے کہا۔
’’ جیتی رہو‘‘ مشفقانہ انداز میں جٹھانی نے دیورانی کے سلام کا جواب دیا۔ اس کی ماں نے وہ دو پٹہ اٹھا لیا جس پر وہ ذرا دیر پہلے لچکاٹانک رہی تھیں۔ ان کو خوان پوشوں ، طلع دانیوں ، بقچیوں، دوپٹوں اور غراروں پر لچکا چٹکی ٹانکتے وہ پانچ سال کی عمر سے دیکھ رہی تھی۔ جب وہ بیٹھی سیتی ہوتیں اور کوئی بیوی آجاتیں تووہ یوں مخاطب ہوتیں۔
’’ اے بہن لڑکی کا جہیز تیار کررہی ہوں ویسے پیام تو بہتیرے آئے مگر ابھی کہیں حامی نہیں بھری ہے۔ آجکل بہن اچھے لڑکوں کی جیسے اُڑنیا ہوا۔‘‘
اپنا یہ مخصوص جملہ انہوں نے چچی کے سامنے بھی دوہرایا۔’ خیر بہن تم جہیز تیار کرو۔ جب سہرے کے پھول کھلے ہونگے تب ہو جائے مگر بہن لڑکی ذات کا بٹھالنا ٹھیک نہیں زیادہ چھان بین نہ کرنا۔‘‘ اسے شدت سے اپنی بے عزتی کا احساس ہوا۔۔۔۔۔ ’’ زیادہ چھان بین نہ کرنا۔۔۔لڑکی ذات کا بٹھالنا ٹھیک نہیں۔۔۔ اور سہرے کے پھول۔۔۔۔۔۔‘‘
آٹا گندھ چکا تھا جو اسے خاصا مشکل کام لگتا تھا۔ ۔۔ اُس نے ہاتھ دھوئے اور اپنے کمرے کی طرف چلدی۔ بڑی چچی کہہ رہی تھیں۔
’’ ماشاء اﷲ ۔۔۔۔ کتنی شرمیلی ہے‘‘
اُس نے کسی بھی بات کو نہ سننے کا فیصلہ کرلیا۔ اور کتاب اٹھالی۔۔۔۔
’’ خلیج بنگال کے اُن دور افتادہ ہرے جزیروں میں جب ہم ناریل کے بلند درختوں کے نیچے ریت کے قلعے بناتے تھے، یا جب ہم کیسپین کے ساحلوں پر رنگین چھتریوں کے سائے میں بیٹھتے تھے یا جب ہم گنگا کی عظیم لہروں پر سفید کیبن اور نیلے پردوں والے اسٹیمروں میں گھومتے تھے‘‘۔۔۔۔
اسی وقت اس کی ماں اندر داخل ہوئیں:
’’ تم سے کتنی بار کہا کہ میرا پجامہ سی دو مجھے دوسرے کپڑوں سے فرصت نہیں تم نے ابھی تک نہیں سیا، سسرال میں یہ سب پڑھائی لکھائی نہیں چلے گی بیٹی‘‘
اُس کو اپنی ماں کی یہ خلل اندازی اور سسرال کی دھمکی قطعاً اچھی نہیں لگی۔ وہ خاموشی سے پڑھتی رہی۔
’’ اے میں کہتی ہوں کچھ سینے پرونے کی بھی فکر ہے کہ بس نگوڑماری کتابیں ہی چاٹا کروگی۔سسرال میں یہ سب نہیں چلے گا۔۔۔۔۔۔ ساس کتابوں کو جھونکے گی چولھے میں اور کام لیتے لیتے بھُرکس نکال دیگی۔‘‘ ان کا غصّہ تیز ہوگیا۔۔ اپنی جگہ شاید وہ حق بجانب تھیں۔
’’اوہ اماں آپ تو چاہتی ہیں کہ میں درزن بن جاؤں کسی بھی وقت نہ پڑھوں جب پڑھنے بیٹھی ڈانٹ پڑناشروع ہوگئی۔‘‘
’’ میں اُن خانصاحب کو کیا کہوں بہن کو پڑھا لکھا کر کسی کام کا نہ رکھا۔ ۔۔۔ نہ

گھر کی نہ گرہستی کی، نہ کام کی نہ کاج کی۔۔۔۔۔ سسرال میں جانے کیا ہوئے گا ای ہوئے گا کیا مردوئے کی جوتیاں کھائیں گی۔‘‘ ۔۔۔۔ وہ برابر کہے جارہی تھیں۔۔۔۔۔۔ ’’ جسے دیکھو یہی کہتا ہے کیوں پڑھا رہی ہو اب کسی کو کیاپتا کہ میں پڑھارہی ہوں یا ان صاحبہ کو بی۔اے۔ پاس کرنے کا شوق ہے۔۔۔۔ لڑکے کو تو بھئی اسلئے پڑ ھوایا کہ بڑھوتی میں ہماری رو ٹیاں چلیں گی، لڑکی کوئی کماکے تھوڑی کھلادے گی۔ اور تو اور زندگی بھر کی کمائی جہیز کی صورت میں لے جائے گی۔‘‘ یہ کہتی ہوئی وہ باہر چلی گئیں۔
’’لعنت ہو ایسے جہیز پر‘‘ اس کے منھ سے نکلا۔۔۔۔اُسے اپنا ذہن بیمار سا محسوس ہونے لگا۔ روز کی یہی باتیں۔ اُس نے پھر افسانہ پڑھنا شروع کردیا۔
’’ سیاہ موجیں آگے بڑھتی ہیں۔ پیچھے ہٹتی ہیں واپس چلی جاتی ہیں۔ ایک ریلہ کے بعد دوسرا ریلہ‘‘۔۔۔۔۔۔
’’آپا ۔۔۔۔ اس کی چھوٹی بہن کمرے میں داخل ہوئی۔ ’’سنوتو کیا باتیں ہورہی ہیں‘‘
’’ اونھ ۔۔۔۔مجھے اچھی نہیں لگتیں یہ سب باتیں مجھے پڑھنے دو۔۔۔۔‘‘
’’ میر ی آپا چلو تو۔۔۔۔‘‘ وہ اُسے گھسیٹتی ہوئی بولی۔ اور اُسے مجبوراً اٹھنا پڑا۔۔۔ اس لیے کہ گھر میں کیا ہورہا ہے یہ جاننا وہ ضروری سمجھتی تھی۔
’’ ای بٹیا اپنی لڑکی کا بیاہ کب کروگی؟‘‘ اس کی ماں سے ایک بوڑھی عورت بیٹھی ہوئی کہہ رہی تھی جو قصبہ کے جاگیردار گھرانوں میں باورچن رہ چکی تھی جس کی وجہ سے اس کے بڑے دماغ خراب تھے۔ ذرا ذراسی بات پر ٹرّاتی۔۔۔ کبھی کبھی دانت نکال کر کچھ مانگنے سے بھی بازنہ آتی اس کے گھر میں اس عورت نے آٹا روٹی کیا تھا۔ آٹا بہترین گوندھتی تھی اور ورقی چپاتی لاجواب پکاتی تھی نام اس کا’’ شدّن ‘‘تھا۔۔۔۔’’بوا‘‘ کا اضافہ اس گھر میں کردیا جاتا تھا کہ انسان کا احترام ایک لازمی قدر تھی۔۔۔
’’ کیا بتاؤں بڑی بیٹی کی بہت فکر ہے ماشاء ا ﷲ کافی عمر ہے تیرھویں سال میں ہے عموماً اس عمر پر لڑکیوں کی شادی ہوجایا کرتی ہے۔ مگر بوا کوئی گت کا پیام نہیں آیا۔ نہیں تو اب تک کب کی ہوگئی ہوتی۔ اب پڑھ لکھ رہی ہیں تو لڑکا بھی تو پڑھا لکھا

ہو۔ ‘‘ اس کی ماں فکر مند ی سے بولیں۔ چھوٹی ابھی دس کی ہے پر لڑکیوں کا کیادو تین سال میں شادی کے قابل ہوجائے گی۔ اب دیکھو دونوں کب اُٹھتی ہیں۔!‘‘
کیا واقعی وہ ایک بوجھ ہے اپنے والدین پر؟ کیا وہ ایک لاش ہے جسکے اٹھنے اور دفنائے جانے کا انتظار کیا جارہا ہے کہ کہیں سڑ کر بدبو نہ دینے لگے۔۔۔۔!!
بیٹا یہاں ایک حاجی جی ہیں۔ ان کا ایک ہی لڑکا ہے بیوی مر گئی ہیں، کسی اچھی لڑکی کی تلاش میں ہیں ویسے لڑکیوں کی کیا کمی ہے مگر لڑکا چاہتا ہے دُلہن گوری ہوئے۔ دسویں میں دوبار ناپاس ہوا پھر پڑھائی چھوڑدی۔ ای ہاں جب گھر کی جائداد ہے تو پڑھنے لکھنے سے کیا فائدہ بھلا‘‘۔ بڑھیا باورچن نے دانت نِکوس کر کہا۔
’’ ای ہاں اور کیا۔ آج کل دیکھو بہن پڑھے لکھے ٹھوکریں کھارہے ہیں اور بن پڑھے بہنیا چین کر رہے ہیں‘‘۔۔۔ بڑی چچی بولیں۔
’’ بیٹا وہ چہتے ہیں کہ لڑ کی گوری چٹی ہوئے اور کام کاج بھی اچھی طرح کرتی ہوئے مگر تمہری لڑکی ذرا سنولی ہے اور شاید کام دھندا بھی ناہی کرت ہے۔ یہی دونوں باتیں لڑکیوں ماد یکھی جات ہیں۔‘‘
’’ اور چاہے جاہل لٹھ ہو۔‘‘ اس کی چھوٹی بہن رئیسہ کمرے سے باہر نکل گئی تھی اور بغور ساری گفتگو سن رہی تھی۔
’’ تم کیوں بولیں؟‘‘ ماں نے اُسے گھورا۔
’’نئیں بیٹا پڑھی لکھی لڑکی وہ نئیں چاہتے۔ پڑھی لڑکی گھرنئیں سنبھال پاتی اور وہ چاہتے ہیں گھر سمٹ جائے۔ تمہاری لڑکی پڑھی نہ ہوتی تو میں حا جی جی کے قدموں پڑجاتی کہ کرلیو‘‘۔۔۔۔۔ بڑھیا نے دانت نکال کر ہمدردی جتاتے ہوئے کہااور اس کی ماں نے سوچا کاش اُن کی بیٹی اَن پڑھ ہوتی تو اتنا اچھا رشتہ کبھی ہاتھ سے نہ جاتا۔۔۔۔۔
اور یہ سب سن کر وہ یہ سوچ رہی تھی کہ ظاہری حسن اور دولت کو اندرونی حُسن اور علم پر ترجیح کیوں؟ کیا لڑکیوں کو واقعی علم کی دولت سے محروم رہنا چاہئے؟ اس کا دل چاہا کہ جاکر اُس بڑھیا کا مُنھ نوچ لے۔ یہ میری توہین ہے۔۔۔۔لیکن اس میں اس بوڑھی باورچَن کا کیا قصور ہے۔۔۔۔۔ یہ تو بے قصور ہے اس کے آپ پاس کےجاگیرداری ماحول نے اسے ایسا بنادیا ہے جیسی یہ ہے۔ جاگیرداری سماج جس نے سیکڑوں سال انسانیت کا خون چوساہے اور نہ جانے کب تک اس کے زہریلے اثرات ذہنوں پر مسلّط رہیں گے۔
اس کی ماں اکثر اُسے قصبے کے جاگیرداروں کے قصّے سنایا کرتیں۔ مشیر احمد خاں نے نہ جانے کتنی شادیاں کی تھیں۔ ۔۔۔۔۔ سیکڑوں لونڈیاں ان کے حرم میں داخل تھیں۔۔۔۔۔ محمد رضا خان نے پتہ نہیں کس بات پر خفا ہوکر اپنی لونڈی کو زندہ چنوادیا تھا۔۔۔۔۔۔ کلیم خاں نے اپنی بیٹی کی شادی میں لاکھوں خَرچ کیا تھا سب چیز سونے کی تھی فقط گھوڑے کی زین سونے کی نہیں تھی تو اسی وقت منگائی گئی تھی۔ جب امراء ورؤسا کھانا کھاچکے تو بچی ہوئی دیگیں بڑے تالاب میں دفن کرادی گئی تھیں اور ایک بھکاری کا بچہ فرش پر پڑی پلاؤ کی ہڈی اٹھاکر چوسنے لگا تھا تو اُسے وہاں سے دھتکاردیا گیاتھا۔!
ایسے ہی نہ جانے کتنے قصّے وہ اپنی ماں سے سنا کرتی تھی جنہیں سُن کر وہ سوچتی کہ جاگیرداری ہندوستان سے ختم ہوگئی لیکن اسکے زہریلے اثرات اب تک ذہنوں پر مسلّط ہیں۔ جاگیردار ختم ہوگئے لیکن اپنی’’ میراث‘‘ چھوڑ گئے ہیں۔ نہ جانے ’’ بزرگوں‘‘ کی اس ’’میراث‘‘ سے کب چھٹکارا ملے گا۔
یہی سوچتے سوچتے وہ دروازے کے پاس سے آکر چارپائی پر لیٹ گئی،اس کی آنکھیں بندسی ہونے لگیں عجیب سی بوریت اسکے وجود پر مسلّط تھی۔ اسی وقت ریئسہ نے آکر اسے جھنجھوڑا۔
’’ آپا اٹھو بھائی جان آئے ہیں۔ ‘‘ وہ خوشی سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ لو نعیمہ یہ بیگ کمرے میں رکھ دو۔‘‘ بھائی جان بولے بیگ اندر لے جاتے ہوئے وہ اُس کے اندر جھانک رہی تھی کسی چھوٹی موٹی چیز کی امید میں نہیں بلکہ شاید بھائی جان کوئی کتاب لائے ہوں!
(۱۹۵۵ ؁ء بہ عمر ۱۳ سال
مطبوعہ ’’عوامی دور ‘‘ ۱۹۶۳ ؁ء۔ سجادظہیر صاحب نے شائع کی)

اگلی مرتبہ ملاحظہ کریں جنگل کی آواز سے انتخاب
پانی کی چٹان

اپنا تبصرہ لکھیں