سید اقبال رضوی شارب
جب ہواؤں میں بھی دیوار نظر آنے لگے
پھر تو جینا بڑا دشوار نظر آنے لگے
اختلافات اچھالے ہیں فضا میں ایسے
مختلف جو ہے وہ غدّار نظر آنے لگے
عید و دیوالی مناتے تھے جو اک دوجے سنگ
آج وہ بر سرِ پیکار نظر آنے لگے
ساٹھ برسوں پہ جو تنقید کیا کرتے تھے
دو برس میں ہی وہ لاچار نظر آنے لگے
جس نے نفرت کی ہی کھیتی پہ رکھی اپنی اساس
وہ بھی اب لوگوں کو اوتار نظر آنے لگے
نہیں پوجوں گا ترا کوئی خدا جس نے کہا
اسکی بھگتی میں بھی سرشار نظر آنے لگے
گاے کے نام پہ لو مارلو کچھ آدم زاد
اب ہمیں ایسے بھی تیوہار نظر آنے لگے
کل تلک جن کو تھا مخصوص سی ٹوپی سے پرہیز
صوفیوں کے وہ طرفدار نظر آنے لگے
یہ بھی ایذا ہے ہر اس شخص پہ جس کو شارب
صاف ، کچھ لوگوں کا کردار، نظر آنے لگے