ڈاکٹر آر اے امتیاز
ایک محاورہ ہے کہ کبّے کو لات اور اسکا کب سیدھا ہو گیا۔ہر کام نیت کے راست مناسب ہوتا ہے۔جب آدمی کسی کام کا تہیّہ کر لیتا ہے تو عین اس کام سے متعلقہ حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔آدمی ان حالت سے نبر آزماء ہونے کی صورت میں بیمار ہوتا ہے۔یعنی ایک مخصوص جیومیٹریکل پلان پہ آؤٹ پٹ دینا پڑتی ہے۔اس جیومیٹریکل پلان کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں۔مثلاً تھانے سے جوتے کھانا۔موٹرسائیکل سے گرنے کے بعد اتنی ہی تکلیف ہونا جتنی تھانے سے جوتے کھانے کی صورت میں ہو سکتی ہے۔یا کوئی ایسا مرض جس میں جسم کو کوٹے پیٹے جاناے کا احساس ہو۔یا کاوند سے جوتے کھانا وغیرہ اس کی جیومیٹری ایک جیسی ہے اس لیے سب کے صلے بھی ایک جیسے ہوں گے۔
اب جبکہ ان میں سے کوئی بھی صورت پیش آ جائے اور اسکا صلہ پچاس ہزارروپئے ہو تو اسے آپ رحمت کہیں گے یا زحمت؟؟
اسلام ان میں سے کسی کو بھی پسند نہیں کرتا۔اسلام کہتا ہے کہ یہ درد اپنی مرضی سے لو۔اپنی قوت برداشت کے مطابق اپنی مرضی سے تھوڑا تھوڑا لو۔نماز روزہ زکواۃ کی شکل میں لے لو۔کوئی اچھا کام ک کرنے کی شکل میں لے لو۔برے کام سے بچنے کی صورت میں لے لو۔
مذکورہ بالا بیماری تو ایک ہی ہے مگر اسباب مختلف ہیں۔سب سے گھٹیا تھانے کی جوتے کھانا ہے۔اس سے قدرے بہتر خاوند کے جوتے اور مرض اس سے بھی بہتر ہے۔سب سے بہتر گرنے والا معاملہ ہے۔یہ دیکھا گیا ہے کہ جو آدمی اللہ سے ڈرتا ہے لیکن پرہیزگاری کے اعلیٰ درجے پر نہیں ہے اللہ اندر ہی اندر سے اسے گجھی مار دے دیتا ہے لیکن باہر سے بے عزتی نہیں کراتا۔