ڈاکٹر آر اے امتیاز
آج چائے کا اتنا رواج ہو چکا ہے کہ ہر آدمی اسکا عادی بن چکا ہے۔چائے غذا نہیں دوا ہے۔شروع شروع میں چائے متاعرف کرانے کے لیے لوگوں کو مفت پلائی جاتی تھی۔پھر بطور دوا بھی استعمال کی جاتی تھی۔اگر کسی کو نمونیہ ہوجاتا توا سے چائے پلائی جاتی تھی۔نمونیہ ٹھیک ہو جاتا تھا۔پھر یہ مشروب ایک دعوتب گیا ہر کسی کی تواضع چائے سے کی جانے لگی۔جوں جوں مانگ بڑہتی گئی توں توں قیمت بڑہتی گئی۔میڈیا نے بھی اسے خوب اچھالا یہاں تک کہ بڑے بہادر لوگوں اور ڈاکوؤں کا مقابلہ چائے کا کپ پی کر ٹی وی میں کرتے دکھایا گیا۔اس طرح کی اشتہار بازی سے اس کی مانگ بڑہتی گئی۔
عام لوگوں کا خیال ہے کہ کھانے کے بعد چائے کا کپ کھانے کو ہضم کرناے میں معاون ہوتا ہے۔حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔اس کے کثرت استعمال سے مندرجہ ذیل اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔
۱۔معد ے میں تیزابیت پیدا کر کے الثر کے خطرے کا باعث بنتی ہے۔
۲۔وقتی طور پر چائے جسم میں چستی پیدا کرتی ہے پھر رد عمل میں سستی پیدا ہوتی ہے۔
۳۔مثانے میں گرمی پیدا کرتی ہے جو کہ جنسی جذبات کو متحرک کرنے کا باعث بنتی ہے۔
۴۔چائے کے عادی نو جوانوں سے پاک بازی اور اچھی سوچوں کی امید رکھنا حماقت ہے۔
۵۔جگر کے فعل کو خراب کر کے جسمانی دردیں پیدا کرتی ہے۔بے خوابی کا سبب بنتی ہے اور جسم کی رنگت سیاہی مائل ہو جاتی ہے۔
۶۔سگریٹ اور چائے کے عادی افراد کے ہونٹ جل چکے ہوتے ہیں جس سے چہرے کا رعب ختم ہو جاتا ہے۔
۷۔بلڈ پریشر اور دل کے مریضوں کے لے تو چائے بہت ہی نقصان دہ ہے۔
۸۔چائے کے کثرت استعمال سے غصہ بہت ذیادہ آتا ہے،طبیعت چڑ چڑی ہو جاتی ہے اور ہاتھ پاؤں جلنے لگتے ہیں۔
دن میں ایک یا دو کپ پینے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر اس سے ذیادہ چائے پینا کثرت کے زمرے میں آتا ہے۔ہمیں اس سے بچنا چاہیے۔