ڈاکوؤں سے انٹرویو
جی اس بندے کو ویسے تو ابوداؤد کہتے ہیں
بہت سے مہرباں لیکن ابو المردود کہتے ہیں
مرے والد فرید آباد کے مشہور ڈاکو تھے
خدا بخشے انھیں، اپنے زمانے کے ہلاکو تھے
نہیں تھا چور کوئی شہر میں دادا کے پائے کا
چرا کر گھر میں لے آئے تھے کتا وائسرائے کا
مرے ماموں کے جعلی نوٹ امریکا میں چلتے تھے
ہزاروں چور ڈاکو ان کی نگرانی میں پلتے تھے
مرے پھوپھا چھٹے بدمعاش تھے اپنے زمانے کے
خدا بخشے بہت شوقین تھے وہ جیل خانے کے
خُسر صاحب سخاوت پور کی رانی بھگا لائے
مرے ہم زُلف اس کی تین بہنوں کو اُٹھا لائے
مرے بھائی نے کی تھی فور ٹونٹی چیف جسٹس سے
وہ جب بگڑا، جلا دیں اس کی مونچھیں اپنی ماچس سے
بڑے وہ لوگ تھے لیکن یہ بندہ بھی نہیں کچھ کم
خدا کا فضل ہے مجھ پر نہیں مجھ کو بھی کوئی غم
میں راجوں اور مہاراجوں کی جیبیں بھی کترتا تھا
چرس، کوکین اور افیون کا دھندا بھی کرتا تھا
مرے معمولی شاگردوں نے چودہ بینک لوٹے تھے
مری کوشش سے باعزت بری ہو کر وہ چھوٹے تھے
عدالت مانتی تھی میری قانونی دلیلوں کو
کرایا میں نے اندر شہر کے پندرہ وکیلوں کو
جو دن میں نے گزارے، شان و شوکت سے گزارے ہیں
ذرا کچھ ان دنوں ہی میرے گردش میں ستارے ہیں
(راجہ مہدی علی خان)