قلم سے قلب “
(شیخ خالد ذاہد)
دنیا اپنی بھر پور رعنائیوں کہ ساتھ چلی جا رہی ہے۔۔۔۔لوگوں کی آمد و رفت لگی ہوئی ہے۔۔۔۔دنیا میں لاتعداد زندگیاں روزانہ جنم لیتی ہیں اور انگنت لوگ زندگی کی بساط سمیٹ کر دارِ فانی سے کوچ کرجاتے ہیں۔۔۔۔انسان کہ پیدا ہونےکی خوشیاں منائی جا رہی ہیں اور فوت ہونے والے آہوں اور سسکیوں میں رخصت کئے جا رہے ہیں۔۔ ۔۔ دنیا میں آسائشوں اور سہولیات کہ لحاظ سے لوگوں کی مختصر تعداد خوشحال ہے اور اس کہ بر عکس دوسری طرف ایک بہت بڑی تعداد دنیاوی آسائشوں اور سہولیات سے محروم ہونے کی وجہ سے بدحال ہے۔۔۔۔۔ قدرت کا کاروبار چل رہا ہے اور چلتا رہےگا ۔۔۔۔
اللہ نے حضرت آدم علیہ اسلام کوتخلیق کیا اور تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کو سجدہ کریں۔۔۔۔اللہ کہ حکم کی فرشتوں سے زیادہ کون بجا آوری کریگا۔۔۔۔مگر ایک فرشتے نے جو کہ فرشتوں کہ سرداروں میں تھا ایک حکم کی تعمیل سے منکر ہوگیا اور حضرت آدم علیہ اسلام کو سجدہ کرنے سے منع کردیا۔۔۔۔ جواز پیش کیا کہ میں آگ سے بنا ہوں اور یہ مٹی سے میں یہ سجدہ کیسے کروں ۔۔۔۔مشیتِ الہی ۔۔۔۔اس اہم ترین فرشتے سے ساری اہمیت چھین لی گئی۔۔۔۔ اسے جنت سے نکال دیا گیا۔۔۔ اسے ابلیس قرار دیا گیا اور رہتی دنیا تک کیلئے راندائے درگاہ قرار دے دیا۔۔۔۔خدا کے بندوں کوورغلانے کی ذمہ داری اس ابلیس نے اٹھالی۔۔۔۔بس یہ وہی وقت تھا کہ انسان کی مشکلات کا سلسلہ شروع ہوگئی ۔۔۔۔خیر اور شر کی جنگ شروع ہوگئی۔۔۔۔اسی دن سے انسان حق اور باطل کی جنگ میں برسرِپیکار ہوگیا۔۔۔۔اورگناہوں کہ دلدل میں پھنستا گیا۔۔۔۔
ہمارے آباؤاجداد کو یہ اس نافرمانی کا بہت اچھی طرح پتہ تھا۔۔۔ہمارے والدین کو بھی اس نافرمانی کا بہت اچھی طرح پتہ ہے۔۔۔۔اب ہم اپنی اولاد کو یہی سبق پڑھا رہے ہیں۔۔۔۔شیطان کی پیروی نافرمانی سے ہی شروع ہوتی ہے۔۔۔۔غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ہمارے آباؤاجداد نے یا ہمارے والدین نے اس بات پر اتنا غور کیا کہ نافرمانی کی شروعات کہاں سے ہوئی ۔۔۔۔نہیں لگتا نہیں کہ اس اہم ترین سانحہ کو اتنی اہمیت دی گئی ۔۔۔۔نافرمانی پر نافرمانیاں ہوتی گئیں۔۔۔۔
یہ مسلئہ ہمارے خاندان کا نہیں۔۔۔۔مسلئہ کراچی شہر کا نہیں۔۔۔۔پاکستان کا بھی نہیں۔۔۔۔یہ مسلئہ یقینا دنیا کا ہے ۔۔۔۔ساری دنیا اس نافرمانی کی لپیٹ میں ہے ۔۔۔۔معاشرے میں بنیادی نافرمانی اپنے والدین سے شروع ہوتی ہے ۔۔۔۔اساتذہ اس کا نشانہ بنتے ہیں۔۔۔۔اور پھر یہ نا فرمانی پیشہ ورانہ ماحول میں ساتھ ساتھ گھومتی پھرتی ہے ۔۔۔۔اس نافرمانی سے ہوتا کیا ہے ۔۔۔۔۔اس نافرمانی سے ، نافرمانی کرنے سے ہم اس پہلے (ابلیس) نافرمان کہ اہلکار بن جاتے ہیں۔۔۔۔اب جو ابلیس کا اہلکار ہوگا اس سے کیا کسی اچھے اور نیک کام کی توقع کیا جاسکتی ہے ۔۔۔۔یقینا نہیں!
اگر ہم اپنی معاشرتی نافرمانیاں لکھنا شروع کریں تو ایک طویل فہرست بن جائے گی۔۔۔۔بلکل ایسا ہی حال ہے ہماری ان نافرمانیوں کاہے جو ہم اپنے مذہب یا اپنے رب کہ ساتھ کررہے ہیں۔۔۔۔ایک طرف تو دنیاوی نافرمانیاں ہیں تو دوسری طرف اللہ رب العزت کی نافرمانیاں ۔۔۔۔پھر ہم کہتے ہیں سکون نہیں ہے زندگی میں ۔۔۔۔سکون کہاں سے آئے گا ۔۔۔۔ہم تو کسی اور کہ اہلکار بنے پھر رہے ہیں۔۔۔۔جو بے ترتیبی کا بانی ہے ہم اس کی مان رہے ہیں۔۔۔۔سجدے پر سجدے ۔۔۔۔زار زار رونا۔۔۔۔نظر نیاز۔۔۔۔چڑہاوے۔۔۔۔یہ سب کچھ فرمانبرداری سے بچنے کیلئے کر رہے ہیں۔۔۔۔ کیا نہیں کر رہے اپنے رب کو منانے کیلئے ۔۔۔۔ فرمانبردار ہوجائیں کچھ بھی نہیں کرنا پڑے گا۔۔۔۔سوائے نافرمانیوں سے پیچھا چھڑوانے کہ۔۔۔فرمانبرداری ہی تو عبادت کا اہم ترین جز ہے۔۔۔۔فخر سے، ادب سے، تعظیم سے آپ اسکے ہی سامنے کھٹرے ہوسکتے ہو جس کہ آپ فرمانبردار ہوتے ہو۔۔۔ورنہ توسب وقت کا ضیاع ۔۔۔۔
نہ صرف ایک عام انسان کی بلکہ خاص انسانوں کی (جن کہ ذمہ انسانیت کو سدہارنے کا ذمہ دیا گیا ہے یا خود انہوں نے لیا ہے) ۔۔۔۔ایک نافرمانی کی ایسی سزا ہوتی ہے کہ اپنے انتہائی خاص فرشتے کو بھی نہ بخشاجائے۔۔۔۔ ہم نے نافرمانیوں کی دکان کھول رکھی ہے۔۔۔۔نافرمانی در نافرمانی۔۔۔۔
اگر اس تحریر سے اتفاق ہے تو پھر نافرمانیوں سے پیچھا چھڑوانے کا عہد کریں ۔۔۔۔عہد کس سے کریں۔۔۔۔جناب اپنے ساتھ فرمانبرداری کریں اور اپنے ساتھ عہد باندھیں۔۔۔۔اللہ ہمارے لئے آسانیاں پیدا فرمائیں۔۔۔