مٹّی کا مادَھو

پہلاحصہ

سگریٹ کا ایک طویل کش لیتے ہوئے اُس نے محسوس کیا کہ اس دیہات کا آسمان شہر کے آسمان سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔ یہاں مِلوں کا دم گھوٹنے والا دھواں اور ٹریفک کا شور نہیں ہے۔ یکسوئی کے ساتھ تخلیقی کام کرنا یہاں کتنا آسان ہے۔ یقیناً وہ تھوڑے ہی عرصے میں بہت کچھ لکھ سکے گا۔ ہوا کے ایک تیز جھونکے سے دیوار پر لگا ہوا کیلینڈر ہلنے لگا۔ کھڑکی کے اُس پار کُنڈ پُر سکون تھا۔ اُس کے کنارے گھنے، سایہ دار ، خاموش اور اُداس درخت ۔ کون سااَسر ار ہے ان درختوں کے پیچھے۔۔۔۔کتنی خاموشی، کتنا سکون۔ کوئی شور نہیں، کوئی آواز نہیں اس نے قلم اٹھایا۔ ۔۔۔۔۔ اُسی وقت’’ کھٹ کھٹ‘‘ کی ایک زوردار آواز نے اُس کے خیالات کو منتشر کردیا وہ آواز قریب ہی کہیں سے آرہی تھی۔ اُس کے سر میں دھمک سی ہونے لگی۔ تو سکون یہاں بھی نہیں ۔ پھر آدمی کہاں جائے۔
وہ بے ہنگم آواز برابر آرہی تھی۔ بکھرے خیالات کو یکجا کرنے کی اُس نے بہت کوشش کی اور ناکام ہونے پرکرسی کی پشت سے سر ٹکا دیا۔ اور آنکھیں بند کرکے اُس آواز کے رکنے کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن ۔۔۔ کھٹ کھٹ ۔۔۔۔ کھٹ۔۔۔ اسے بڑی جھنجھلاہٹ محسوس ہوئی۔ صبح وہ ضرور معلوم کرے گا کہ یہ آواز کہاں سے آتی ہے اور کون ہے جسے رات کا سکون برباد کرنے میں اتنی دلچسپی ہے۔ اُس نے سگریٹ سُلگائی اور اس کی خوشبو اسے اُس وقت بیحد لطیف محسوس ہوئی۔ شیڈدار، خوبصورت لیمپ جیسے اُسے دعوت دے رہا تھا کہ آؤ اور میری روشنی میں اپنے بیش بہا خیالات کوصفحۂ قرطاس پر اُتار دو۔ کھڑکی کے اُس پار آسمان بے حدحسین تھا۔ تالاب کے پانی پر چاند کا عکس اور درختوں کے پُر اسرار ، مہیب سائے۔ کتنا مناسب ماحول اور اُس کے بر خلاف ’’کھٹ کھٹ‘‘ کی اتنی ناگوار اور بے ہودہ آواز۔ غصّہ جب اور بڑھا تو اُس نے بتّی گل کردی اور سونے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ وہ آواز مسلسل آرہی تھی۔’’ کھٹ کھٹ‘‘ سارا موڈ چوپٹ ہوگیا۔ اس وقت وہ یقیناً بہت اچھا لکھ سکتا تھا۔
دوسرے دن معلوم ہوا کہ پاس ہی ایک موچی رہتا ہے۔ جو دن رات اپنا کام کرتا رہتا ہے تھک جانے پر کچھ دیر آرام کر لیتا ہے پھر شروع کردیتا ہے اس کے کام کا کوئی وقت مقرر نہیں ۔ محلّے والوں نے بہت چاہا کہ وہ رات کو کام کرنا بندکردے لیکن اس نے کسی کی ایک نہ سنی اور اب تو وہ سب اس آواز کے عادی بھی ہوچکے ہیں۔
جس وقت وہ اس موچی سے بات کرنے پہنچا تو وہ اپنی جھونپڑی کے سامنے بیٹھا ہوا جوتے بنارہا تھا۔ سارا سامان بے ترتیبی سے اِدھر اُدھر بکھرا ہوا تھا۔ کئی جوڑے جوتے، پھٹے ہوئے اور مٹی میں لتھڑے ہوئے جوتے، پالش سے چمکتے ہوئے جوتے اور چپلیں، چمڑے کے ٹکڑے، کیلیں اور جوتا بنانے کے مختلف اوزار اس کی دھوتی پر جا بجا پالش کے داغ تھے اور واسکٹ مزید مرمت کے لئے ہرگز تیار نہ معلوم ہوتی تھی ۔ اس کے دائیں کان کے اوپر ادھ جلا، بیڑی کا ٹکڑا بالکل صاف نظر آرہا تھا۔
’’رام دُلارے۔۔۔‘‘ وہ موچی سے دھیرے سے مخاطب ہوا۔ نام اُس نے پہلے ہی معلوم کر لیا تھا۔ رام دلارے گھبراسا گیا۔ اپنے پاس ایک’ جنٹلمین‘ کو دیکھ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ اس کے پیروں کی طرف بڑھائے۔
’’ سرکار جوتا پالش۔؟‘‘
’’ نہیں رام دلارے، مجھے تم سے صرف یہ کہنا ہے کہ تم رات بھر شور کیوں کرتے رہتے ہو۔ کل رات نہ تو میں پڑھ لکھ سکا اور نہ ہی سو سکا۔‘‘
اتنے میں رام دلارے نے پاس کھڑی ہوئی کھاٹ بچھادی۔
’’ بیٹھ جاؤ بھیا تنی۔۔۔۔۔۔ ہاں توکا کہا۔۔۔۔؟ ارے ٹھاڑے کاہے ہو میاں بیٹھ جاؤ۔‘‘ چارپائی پر بیٹھتے ہوئے اُس نے دیکھا رام دُلارے کے چہرے پر پڑی جھرّیوں کی طرف، اندر دھنسی ویران آنکھوں ، خشک اور الجھے ہوئے بالوں اور ننگے پیروں کی طرف ۔
’’ ہاں بھیّے تو تم کا کہت رہے، کھٹ کھٹ ہوت ہے؟ وہ تو جانو ہم اپنا کام کرت ہیں دن کا بچا کچھا کام رات ما کھتم ہوجات ہے۔‘‘
’’ رام دلارے میں رات کو اپنا ضروری کام کرتا ہوں، لکھتا پڑھتا ہوں، اس میں تمہاری ہتھوڑی کی آواز سے بہت حرج ہوتا ہے، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم اپنا

جاری ہے۔۔
اپنا تبصرہ لکھیں