رات کے ٹھیک بارہ بج رہے تھے ہوائیں سَن سَن کرکے چل رہی تھیں۔ کبھی کبھی بجلی چمک جاتی اور بادل گرجنے لگتے۔۔۔ اچانک زور کی بارش شروع ہوگئی۔
’’ٹوٗدی لائٹ ہاؤس‘‘ میرے ہاتھ میں تھی جس کا مطالعہ میں کافی دیر سے کررہی تھی۔۔۔۔۔ مسزریمزے ، ناول کی مرکزی شخصیت، کا انتقال ہوچکا تھا جس کا میرے اوپر خاصا ا ثر تھا میں نے کتاب سائڈ ٹیبل پر رکھ دی ۔ اتنے خوبصورت موسم میں دل کوئی کہانی لکھنے کو چاہ رہا تھا۔۔۔۔۔ چراغ سے چراغ ہمیشہ جلتے آئے ہیں ۔ میں نے قلم اٹھالیا۔!
فرزانہ، میری روم میٹ، ذرا اونگھ چلی تھی۔ وہ ٹریننگ کالج سے بی۔ایڈ کررہی تھی اور میں انگریزی ادب میں ایم۔اے۔۔۔۔۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طالبات۔۔۔۔ ہم عبداﷲ ہال کے نیو ہاسٹل کے کمرہ نمبر
فرزانہ کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر چکی تھی جسے میں نے اٹھاکر میز پر رکھ دیا اور کھڑکی کے پاس جاکر آسمان کا انداز دیکھنے لگی جو بادلوں سے سیاہ ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔ جب رات کو یوں بارش ہوتی ہے، بادل گرجتے ہیں اور بجلی چمکتی ہے تو نہ جانے کیوں اک جذب کی کیفیت ہمیشہ طاری ہوجاتی ہے کھوسی جاتی ہوں۔۔۔۔ باہر رِم جھِم بارش ہورہی تھی۔۔۔۔ پانی کی موسیقی ۔۔۔۔۔ اچانک دروازے پر بڑے زور سے دستک ہوئی اور میں چونک گئی۔۔۔۔۔ ایک بے حد پُر اسرار آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ۔ میں سہم گئی۔۔۔۔۔ ہائے یہ اس وقت کون آیا ہے فرزانہ بھی آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔۔۔۔۔ وہ بھی حواس باختہ تھی۔
’’دروازہ کھولو‘‘ آواز اس بار ذرا زور سے آئی۔ ہم دونوں پر لرزہ طاری ہوگیا۔۔۔۔۔
اتنی رات گئے ایسے طوفانی موسم میں آخر یہ کون ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔ اور ہم دونوں نے خوفزدہ ہوکر ایک دوسرے کو دیکھا۔ دونوں کے ذہنوں میں ایک ہی خیال آیا۔ آج ہی شام لان پر بیٹھی لڑکیوں کے جمگھٹ میں جنوں اور بھوتوں کے قصّے سنائے گئے تھے۔ ہمارے سامنے پُر اسرار صورتیں تھیں اور ہمارا جیسے دم نکلا جارہا تھا اور ریسرچ اسکالرز کے کمرے وسیع لان کے اس پار والے وِنگ میں تھے ہم ان کو ہی اپنا بزرگ مانتے تھے مگر اس وقت تو دروازہ کھولنا ہی خطرے سے خالی نہ تھا۔ دم سادھے ہم چپ چاپ کھڑے تھے دل بُری طرح دھڑک رہا تھا اور پیروں پر لرزہ طاری تھا۔۔۔۔۔!
’’ دروازہ کھولو۔‘‘ پُر اسرار ، سحر زدہ سی آواز پھر آئی اور ہماری گھگھی بند ھ گئی کوئی صورت نہ تھی کسی کو مدد کے لیے بلانے کی۔۔۔۔۔۔ کھڑکی جدھر کھُلتی تھی اُدھر گھنے درخت تھے اور موسلادھار بارش اور اندھیرا۔۔۔۔۔ اور گاہے گاہے چمکنے ولی بجلی کی لہریں۔۔۔۔۔۔
’’ کون بابو علی؟‘‘ ڈرتے ڈرتے فرزانہ نے پوچھا۔ بابو علی ہمارے ہاسٹل کے چوکیدار تھے اور حاضری کا رجسٹر وارڈن یعنی رشیدہ آپا کے پاس لے جاتے تھے اکثر اسی وقت وہ رجسٹر لینے آیا کرتے تھے۔ لیکن ان کی آواز تو ہرگز نہیں تھی۔۔۔۔ پھر آخر یہ کون ہے باہر۔۔۔۔۔ عجیب مخمصے میں تھے ہم دونوں۔
’’دروازہ تو کھولو بی بی‘‘ ا ب کی بار آواز میں کچھ نرمی تھی۔ ہماری ذرا جان میں جان آئی اتنی محبت سے بیٹی کہنے والا جِن یا بھوت تو ہر گز نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔اور میں نے ہمت کرکے دروازہ کھول دیا۔ پردہ اُٹھاکر ایک پستہ قد بزرگ اندر داخل ہوئے الجھے الجھے بھورے بال کاندھوں تک آگئے تھے، الجھی داڑھی، سیاہ پرانا سا کوٹ، کافی بوسیدہ ٹینس شوزپہنے ہوئے، ایک ہاتھ میں ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں تھیلا جس میں کچھ بھرا ہوا تھا۔ ہم دونوں کی ایک ساتھ چیخ نکل گئی حالت خراب تھی۔ بادل اور زیادہ تیزی سے گرج رہے تھے۔
’’ یہاں کوئی ساجدہ بی بی رہتی ہیں؟‘‘ بڑی پُر اسرار، سمندری آواز میں اُن بزرگ نے استفسار کیا۔۔۔۔۔۔ اور دروازہ بند کرنے لگے کیوں کہ تیز بارش کی وجہ سے بوندیں اندر آرہی تھیں اور ہوا بے حد زوروں سے چل رہی تھی۔ ہماری جان سوکھ گئی۔ جانے یہ کمبخت بوڑھا کیا کر رہا ہے۔ ہائے یہ کہیں کوئی بھوت اوٗت تو نہیں جو انسان کے بھیس میں ہمیں مارنے آیا ہے۔ گھبرا کر ہم نے کمرے سے باہر بھاگنا چاہا کہ کسی کو مدد کے لیے پکاریں اسی وقت وہ بڑے میاں پُر اسرار سی آوازمیں بولے۔
’’ ڈرو نہیں بیٹی۔۔۔۔۔ ڈرو نہیں۔۔۔۔۔ میں کوئی چور اچکّا نہیں ہوں، تمہاری طرح ہی انسان ہوں۔ بتاؤ ساجدہ بی بی کہاں رہتی ہیں؟ کو ن سا کمرہ ہے ان کا؟‘‘
ا ب کی بار ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی پھر انہوں نے تھیلے میں اپنا بایاں ہاتھ ڈالا، ہمارا دم نکل گیا اﷲ جانے یہ شخص تھیلے میں سے کیا نکالے گا کہیں چھُرا اُرا تو نہیں کہ ہم کو ختم کردے یا پھر سُنگھانے والی دوا کہ ہم کو بے ہوش کرکے اُٹھا لے جائے۔ ہماری دوسری کربناک چیخ نکلنے والی تھی کہ تھیلے سے ایک عدد عمدہ ، خاصا بڑے سائز کا امرود برآمد ہوا۔ ان بزرگ نے ہم سے کہا۔
’’بیٹی ساجدہ بی بی جو ہیں نا وہ یہیں رہتی ہیں یہ امرود ان کو دے دینا میں تمہارے ڈائننگ ہال کے بیرے ستّار کا باپ نواب علی ہوں اور رات کو چوکیداری کرتا ہوں۔‘‘
اب جاکر ہماری جان میں جان آئی اور اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا جو نیچے تھا وہ ٹھیک ہوا اور پھر اس عجیب واقعے پر ہنستے ہنستے ہمارا بُرا حال ہوگیا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ