تبصرہ اور ترکیبیں
شازیہ عندلیب
بیشتر ڈرامہ سیریل معاشرتی مسائل لوگوں کے کردار اور مسائل کے حل پر مبنی کہانیوں پر پیش کیے جاتے ہیں۔یہ کہانیاں ہمارے ارد گرد بکھرے کرداروں کے بارے میں ہوتی ہیں بعض ڈراموں کی کہانیاں اس قدر حقیقت سے قریب ہوتی ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ڈرامہ رائٹر نے ہماری ذاتی یا ہمارے کسی جاننے والے کی کہانی لکھ دی ہو۔اس پر فنکار اپنی حقیقی ایکٹنگ سے اس میں رنگ بھر دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کچھ ڈرامے جن میں فاطمہ ثریا بجیا ،اے آر خاتون امجد اسلام امجد اور مزاح میں ڈاکٹر یونس بٹ جیسے رائٹرز کی کہانیوں پہ لکھے گئے بہت ہٹ ہوئے۔اسی طرح پچھلے برس ایک ڈرامہ بڑی آپا چلا تھا جو کہ ہر دوسرے گھر کی کہانی تھی۔ایسی بڑی آپا ہر دوسرے پاکستانی گھرانے میں کم و بیش پائی جاتی ہے۔ہمارے ہاں فیملیز کے بڑے بہن بھائیوں کا برتاؤ اور نفسیات ہی بالکل مختلف ہوتی ہے۔کئی ڈراموں کی کہانیوں میں مسائل کا بہت منطقی حل پیش کیا جاتا ہے ایسے ڈراموں میں اکثر ثمینہ پیرزادہ جیسی منجھی ہوئی اداکارائیں کام کرتی نظر آتی ہیں ان کا کوئی ڈرامہ بے تکی کہانی والا نہیں ہوتا۔
آجکل ہم ٹی وی کا ڈرامہ من مائل کافی مقبول جا رہا ہے۔جن لوگوں نے ابھی تک یہ نہیں دیکھا وہ ضرور دیکھیں بہت دلچسپ معاشرتی کہانی ہے۔جس میں طبقاتی فرق کی وجہ سے پیش آنے والے مسائل کے بارے میں عکس بندی کی گئی ہے۔ہم ٹی وی چینل کا ڈرامہ ہے ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔بہت صاف ستھرا اور منجھے ہوئے خوبصورت فنکاروں کا ڈرامہ ہے۔ بس کہانی میں کچھ جھول ہے۔جس کی وجہ سے قلم اٹھانا پڑا۔اس کے ہیرو حمزہ خان ہیں جو کہ اپنی رومانٹک ایکٹنگ کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں ۔بہت ڈوب کر ایکٹنگ کرتے ہیں۔اس میں وہ صلاح الدین نامی ایک ایسے شخص کا کاردار ادا کر رہے ہیں جو اپنی زندگی میں شادی جیسے اہم فیصلے میں تذبذب کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔ ہیروئن کا کاردار مایا خان ادا کرہی ہیں۔یہ ایک خوبصورت لیکن عقل سے پیدل لاور جذباتی لڑکی کا کاردار ہے ۔ہیرو میا علی عرف منو کو پسند کرتا تھا اس سے اسٹیٹس نہ ہونے کی وجہ سے شادی تو نہ کی لیکن اسکا خیال ہمیشہ رکھا۔ ہیروئن کی شادی ایک بگڑے ہوئے دو لتمند لڑکے سے کروا دی۔اس دوران اسے اتفاق سے ڈرامہ کے ہیرو کو ایک دوست کے بوڑھے باپ کی طرف سے ایک قیمتی بنگلے کا تحفہ مل گیا جو اسے مرنے سے پہلے اس کے نام کر دیتا ہے۔اس کے بعد ہیرو کی زندگی میں اسکی سیکرٹری آ جاتی ہے جو دفتر کا کام کم اور گھر کا کام ذیادہ کرتی ہے۔ڈرامہ سے ایسا لگتا ہے جیسے وہ دفتری کام پر کم دھیان دیتی ہے اور باس پر ذیادہ۔جینا نامی سیکرٹری کو کبھی دفتر کا کام کرتے نہیں دکھایا گیا۔ہر دوسرے سین میں ہانڈی چولہا سنبھالا ہوتا ہے یا پھر باس کو روٹیاں کھلا رہی ہوتی ہے۔ہیرو بھی ایسا بودا اور بھوکا کہ روٹیاں کھا کھا کر اپنی سیکرٹری کی محبت کاا سیر ہو گیا۔بزدل تو پہلے ہی تھا۔ جینا سیکرٹری نے اس بیچارے کی مت ہی مار دی ۔اس کے علاوہ اسکا ملازم اجمل ایک اہم کردار ہے جو ہر وقت با س کے ساتھ اپنی وفاداری کے باعث دلجوئی کرتا رہتا ہے۔ہیرو اس وقت دو عورتوں کے درمیان پھنس چکا ہے کیونکہ اس کی سابقہ پڑوسن اور طالبہ منو جسے وہ ٹیوشن بھی پڑھاتا تھا۔سو ئے اتفاق اسکی اپنے شہر سے علیحدگی ہو گئی۔اب ہیرو پوری طرح سے اسکی حفاظت اور دیکھ بھال کا فرض ادا کر رہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ شادی کس سے کرتا ہے اپنی سابقہ محبوبہ مناہل عرف منو سے یا اپنی سیکرٹری جینا سے؟؟
اکثر و بیشتر ڈراموں میں ہیرو ہیروئن کے نام ان کے کردار کے مطابق منتخب کیے جاتے ہیں۔جیسے گھریلو ان پڑھ ملازموں کے نام کلو بلو یا پھتو وغیرہ رکھ دیے جاتے ہیں جبکہ تاریخی مجاہدین والے نام مضبوط کرداروں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔صلاح الدین ایوبی ایک تاریخ ساز ہیرو گزرے ہیں۔اس تاریخ ساز مجاہد اسلام نے کئی معرکہ آراء جنگیں لڑیں اور سے فتوحات نصیب ہوئیں۔مگر ڈرامے کے ہیرو صلاح الدین کا کردار اس قدر کنفیوز اور بزدل دکھایا گیا ہے کہ نہ صرف اس نام کا تاثر خراب ہو گیا ہے بلکہ بیشتر ناظرین اسے نا پسند کرنے لگے ہیں کہ ایسی بیوقوفی اور بزدلی کسی مرد اور وہ بھی ڈرامے کے ہیرو کو زیب نہیں دیتی۔ایک تبصرہ نگار خاتون نے ہیرو کو گولی مار دینے کی فرمائش بھی کی جو کہ نا مناسب ہے کیونکہ اصل قصور ڈرامہ رائٹر کا ہے ۔یہ فنکار تو ایک رائٹر کے لیے شطرنج کی بساط کے وہ مہرے ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنی مرضی سے چلاتا ہے۔اس لیے کوئی کاروائی کرنی ہے تو رائٹر کے لیے کی جائے ڈرامہ کا ہیرو تو بیچارہ بے قصور ہے ۔وہ ایسے نہ کرے تو اسے ڈرامہ کی کاسٹ سے ہی نکال دیا جائے اور وہ اپنی روزی روٹی سے بھی جائے۔ لہٰذا اس طرح کی فرمائشوں سے گریز ہی بہتر ہے۔اب رہ گیا مسلہء ڈرامے کے ہیرو ہیروئن کا تو یہ جوہیروئن ہے ڈراموں میں اکثر اسکا انجام اچھا نہیں دکھایا جاتا۔ جانے ڈرامہ رائٹر کو اس سے کیابیر ہے؟؟ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رائٹر اپنی کسی تشنگی اورناکامی کا بدلہ ایسی کہانیاں لکھ کر مٹاتا ہو۔۔۔ بہر حال ایسی کہانیاں ناظرین کی طبع پر بہت گراں گزرتی ہیں۔جہاں تک ڈرامہ کے ہیرو کی شادی کا مسلہء ہے تو ڈرامے کی کہانی جو بھی ہو رائٹرکی مرضی اورمن مانی کچھ بھی ہو انجام جو بھی لکھا جا چکا ہے۔اسکا بہترین حل یہ ہے کہ منو کی شادی صلاح الدین سے اور جینا کی شادی ملازم اجمل سے کر دی جائے۔جینا کے پاس بس ایک ہی جملہ ہے ہر بار کہ میرا دنیا میں کوئی بھی نہیں پتہ نہیں وہ کہاں سے گری ہے لگتا ہے کہ سیکرٹری جامن کے پیڑ سے گری ہیں اسکاآگے پیچھے کوئی نہیں ۔رائٹر کو چاہیے تھا کہ تھوڑی سی محنت کر کے اس کے خاندان کا بھی اتہ پتہ ڈھونڈ لیتے۔وہ کس طرح صلا ح الدین کے گھر میں بغیر کسی خاص وجہ کے رہنے پر مصر ہوتی ہے۔کیا کردار دکھایا ہے سیکرٹری کا بہت خوب !!!!بلکہ سیکرٹی کے پیشے کی کافی کردار کشی کی گئی ہے۔یہ نہ ہو کہ ساری سیکرٹریاں مل کر ڈرامہ رائٹر کے گھر کے آگے جینا کی طرح دھرنا مر کے بیٹھ جائیں یا پھر اس پہ پتھراؤ کر دیں۔آجکل تو ویسے بھی دھرنے کا زمانہ ہے ۔ادھر کوئی مسلہء ہوا لوگوں کی ایک ٹولی دھرنا مارنے پہنچ جاتی ہے۔کام کاج سے فراغت اور کھانا پینا فری میں مل جاتا ہے ۔فری ٹائم گزارنے کا یہ بھی اچھا طریقہ ہے۔ہو سکتا ہے کہ اگلی سیریل میں منو کی دوسری شادی کا مسلہء حل ہو گیا ہو تاہم اگر یہ مسلہء احسن طریقے سے حل ہو گیا تو ٹھیک نہیں تو یہ تجاویز اگلے ڈرامے کے لیے رکھ لیں ورنہ۔۔۔ڈرامہ کا انجام اچھا نہ ہوا تو پھر ۔۔۔رائٹر اب کی بار سوچ سمجھ کر انجام لکھیں۔۔۔ورنہ ۔۔۔یہ کام سر انجام دینے کے لیے اور بھی بہت ہیں۔۔۔
اب رہ گیامسلہء سیکرٹری جینا کی شادی کا تو وہ کر دیں ملازم اجمل سیے دونوں میں کئی قدریں مشترک ہیں دونوں لا وارث ہیں ان کے خاندانوں کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔انکا باس بھی ایک اور ان دونوں کو اس سے محبت بھی بہت ہے۔سیکرٹری کو رہنے کے لیے ایک گھر ہی چاہیے تو وہ تو اجمل کے پاس بھی ہے گو ذرا سا چھوٹا ہی سہی۔مگر توبہ ہے جو رائٹر کبھی ایسا انجام کرے اس کی تو مردانگی میں کمی آ جائے گی۔ویسے بھی منو سے تو ہے ہی ڈرامہ رائٹرز کو خدا وسطے کا بیر!!! وہ اسکا انجام اچھا کر ہی نہیں سکتے۔۔ اس ڈرامہ کی رائٹر سمیرا افضل ہیں۔اگر کسی رائٹر کو
ڈرامے کا انجام سمجھ نہ آئے تو ناظرین کی بد دعائیں لینے کے بجائے ہم سے رجوع کریں انشاللہ انجام بخیر ہو گا۔آزمائش شرط ہے۔۔