بچپن کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی جہاں کانوں
میں اللہ اکبر کی صدا سنائی دی ،ہمارے سماج اور معاشرے نے اللہ اور رسول کا احترام سکھایا وہیں ہمیں بھوت پریت اور شیطان کی خیالی تصویرسے بھی ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی گئی۔جس طرح ذہن میں اللی تعا لیٰ کے تعلق سے طرح طرح کے خیالات ابھرتے کہ اللہ کون ہے اسے کس نے پیدا کیا اس کی شکل کیسی ہوگی اور اس نے اس پوری کائنات کو کیسے بنایا ہوگا؟ اسی طرح شیطان کے بارے میں بھی یہ جاننے کی خواہش رہی کہ شیطان کون ہے اور کیا اس کی بھی کوئی شکل ہے ؟ہمیں بتایا گیا کہ جس طرح انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا ،شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیااور اسے اختیار ہے کہ وہ جب چاہے انسان کی شکل بھی اختیار کرلے۔اللہ تعا لیٰ کے بارے میں جانکاری دی گئی کہ اللہ ایک نور ہے اس کی کوئی شکل نہیں ،نہ اسکا کوئی باپ ہے اور نہ کوئی بیٹا وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔یہ بات ایک بچے کو سمجھانا تو بہت آسان ہے مگر سمجھنا بہت مشکل ۔اسی لئے ذہن میں اکثر وسوسہ پیدا ہوتا ہی رہا ہے کہ اللہ کے وجود کی حقیقت کیا ہے؟اس پوری کائنات کا کوئی خالق نہ ہوتا تو ہم کیا ہوتے؟ مگر ذہن یہ سوچ کر کسی مقام پر اسی طرح سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوکر ٹھہر جاتا ہے جیسے کہ ایک پانچویں کے بچے کو دسویں اور بارہویں کی ریاضی میں Trignometry کے سوالات حل کرنے کے لئے دے دیئے جائیں ،اور پھر انبیاء کرام اور انکی کتابوں کے مطالعے کے بعددل کو ایک ایسے مقام پر لاکر مطمئن کر لینا پڑتا ہے کہ عمر صاحب بہت سے سوالات کا حل تلاش کرنے کے لئے صرف بی اے،ایم اے،میڈیکل، انجینیئرنگ اور عالمیت کی ڈگری کافی نہیں ہوتی بلکہ تحقیق و تفتیش کیلئے کبھی پی ایچ ڈیکے طالب علم عمر کا ایک بہت بڑا حصہ گزارنے کے بعد صرف ایک خاص مضمون میں ہی مہارت حاصل کر پاتے ہیں ۔اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں ہزاروں سال سے انسانوں میں ایک کثیر تعداد نے جس اللہ خدا یا اس کائنات کے مالک کے تصور کا عقیدہ قائم کر رکھا ہے یہ کسی ایک شخص یا ادارے کی تحقیق و تجربے کا نتیجہ نہیں ،بلکہ آدمؑ سے لیکر ابراہیم ؑ ،موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کے بعد حضرت محمد ﷺ تک انبیاء کرام کو مالک کائنات نے اپنے وجود سے واقف کرایا ہے۔اسکے علاوہ بدھشٹ ،ہندو ،جین،یہودی یا پارسی عیسائی اور نرنکاری وغیرہ کے نام سے دنیا میں جو بھی مذہبی عقائد برسہا برس سے قائم اور رائج ہیں اور کسی نہ کسی طرح شوالوں ،معبدوں ،کلیساؤں ،مندروں اور مسجدوں میں عبادت کے مختلف طریقے بھی رائج ہیں ۔کیا اللہ ایشور اور خدا کے اس عقیدے کو رد کرنے کے لئے انسان کو صرف ستر سے اسی سال کی زندگی کافی ہوگی ۔جبکہ اس کی پوری زندگی کا تین چوتھائی حصہ وہ یا تو اپنے بچپن بوڑھاپے،تلاش معاش ،تحقیق و تفتیش اور نیند کی حالت میں گزاردیتا ہے۔یہ اور اس طرح کی چند دلیلوں نے بہر حال ہمیں اس بات پر مجبور کیا کہ اللہ اور ایشور کے بارے میں ہمارے والدین نے ہمارے ذہنوں میں جو تصور قائم کیا ہے وہی درست ہے۔ یا ہم ابھی علم کے اس مقام تک نہیں پہنچ سکے ہیں کہ اللہ کے وجود کا انکار کرسکیں۔ہم خود اپنے آپ سے اس طرح کے بہت سے سوالات کا حل تلاش ہی کر رہے تھے کہ اچانک موبائل پر کسی دوست نت اطلاع دی کہ ممبئی یونیورسٹی میں ’’اردو صحافت اور ممبئی میں اردو اخبارات کا مستقبل‘‘کے عنوان سے ایک مباحثہ رکھا گیا ہے جس میں ممبئی سے نکلنے والے تقریباً تمام چھوٹے بڑے اردو اخبارات اور رسائل کے ایڈیٹر حضرات اور کچھ ادبی شخصیات شریک ہورہی ہیں۔اس مجلس میں اردو اور اردو صحافت اور اردو اخبارات کو درپیش مسائل کے تعلق سے بہت ساری گفتگو کی گئی جس میں انگلش ہندی اور دیگر زبانوں کے اخبارات ان کے قاری اور ان کی بیداری کے تعلق سے جہاں تمثیلی گفتگو ہوئی اشتہارات اور سرمائے کی قلت پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مسلمانوں میں تعلیمی بیداری اور مطالعے کا فقدان ہے جسکی وجہ سے اردو اخبارات اور رسائل کی تعداد دن بدن گھٹتی جارہی ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم اردو صحافت اور اردو اخبارات کا فروغ کیوں چاہتے ہیں؟ایک عام خیالذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور اس اردو میڈیا کے ذریعے اپنی بات اپنے لوگوں تک آسان فہم زبان میں پہنچاسکیں ۔پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہماری اپنی بات ہے کیا؟ غالب میر تقی میر کی غزلیں ؟ یا اسلام یا عالم اسلام سے جڑے ہوئے مسلمانوں کے جذبات اور ان کے حالات کی ترجمانی؟
بے شک ہمارا قیمتی سرمایہ ہماری اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ ہے جسے اردو صحافت اور اردواخبارات سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔مگر اردو اخبارات کے بیشتر ایڈیٹروں نے اس مباحثے میں اردو صحافت کے ساتھ اسلام اور قرآن کو جوڑنے کی جرات نہیں کی ۔مگراردو کے ایک ایڈیٹر نے جب اردو اخبارات کے ایڈیٹوریل میں قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ کا حوالہ دیئے جانے کا تذکرہ چھیڑا تو بہتوں نے منھ بنالیا۔ایک وقفے کے بعد جب ہم نے بھی اپنے رسالہ ’’صحیفہ والدین‘‘پر روشنی ڈالنے سے پہلے صحیفے کے حقیقی مخرج اور مقاصد پر قرآن کے حوالے سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی تاکہ صحافت کے حقیقی تصور کو سامنے لایا جاسکے تو اسی دوران ایک ترقی پسند افسانہ نگار نے یہ کہتے ہوئے ٹوک دیا کہ آپ موضوع سے ہٹ رہے ہیں۔حالانکہ ہم غلطی پر تھے یا نہیں اس موضوع پر گفتگو کے بعد بھی سوال کیا جاسکتا تھا مگر سچائی یہ ہے کہ اردو صحافت اور اخبارات میں ایک کثیر تعداد ان جیسی ذہنیت کے لوگوں کی شامل ہو چکی ہے جو اردو صحافت میں بھی قرآن و اسلام کے حوالے سے بات کرنا پسند نہیں کرتے ۔اپنی بات کو ختم کرنے بعد ابھی ہم اپنے ساتھ گزرے ہوئے حالات پر افسوس ہی کر رہے تھے کہ بازو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص نے انگلش میں ایک مقولہ سنایاDon’t expect anything ,you will never be disapointed. کسی چیز کی امید مت رکھو تم کبھی مایوس نہیں ہوگے۔ہم نے کہا آپ کامطلب اس نے کہا شاید آپ نے امید لگا رکھی تھی کہ یہ اردو ادب اور صحافت کی محفل ہے یہاں اسلام قرآن اور صحیفے پر بحث کرنا آسان ہوگا ۔مگر غلط فہمی میں مت رہئے ’’میں‘‘ نے اردو ادب ،اردو صحافت اور اردو اخبارات میں بھی سلمان رشدیوں اور تسلیمہ نسرینوں کو شامل کردیا ہے جو اردو ادب اور صحافت میں بیہودگی اور فحاشی کو تا جائز سمجھتے ہیں مگر اسلام اور قرآن کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ فرق اتنا ہے کہ میں نے رشدی اور تسلیمہ نسرین جو کبھی مسلمان ہوا کرتے تھے کی حفاظت کو انتظام کرواکر اجازت دے رکھی ہے کہ وہ علی الاعلان اسلام قرآن اور مسلمانوں کے رسول ﷺ کے خلاف جہاد بلند کرتے رہیں مگر جنہوں نے ابھی دارالکفر میں ہجرت نہیں کی ہے اور ان لوگوں پر مسلمانوں کا دبدبہ قائم ہے ان سے کہو کہ ڈھکے چھپے انداز میں اسلام کی بنیاد کو کمزور کرتے رہیں ۔ میں بڑی حیرت اور تعجب میں پڑ گیا کہ یہ شخص کون ہے اور کیوں بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے۔میں نے پوچھا تمہاری تعریف اس نے کہا ’’شیطان‘‘ میں اچانک کرسی سے اٹھ گیا اور لاحول پڑھتے ہوئے سوچنے لگا کہ کہیں یہ میرا وسوسہ تو نہیں ۔مگر پھر بزرگوں کی بات یادآگئی کہ شیطان کو اللہ نے اختیار دیا ہے کہ وہ انسان کی شکل اختیا ر کرلے پھر میں نے اس مردود سے مخاطب ہوکر کہا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو اس نے کہا دیکھنے آیا تھا کہ میرے لوگ کس طرح سے کام کر رہے ہیں اور پھر وہ اٹھ کر جانے لگا۔مگر جانے سے پہلے اس نے اپنا موبائل نمبر دیا کہ کبھی کچھ پوچھنا ہو تو فون کر لینا۔کئی بار سوچا کہ اسے فون کروں اور ایک انٹر ویو لیکر اخبارات کو بھیجوں مگر جب بھی فون لگاتا ہوں یا تو فون مصروف ہوتا ہے یا رینج سے باہر ہوتاہے۔کئی sms کیا مگر اس کا بھی جواب نہیں ملا۔کل اچانک اس نے مجھے فون کیا میں نمبر دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ وہ وقت آگیا ہے کہ دنیا کے سامنے پہلی بار شیطان کا انٹر ویو پیش کرنے کا نایاب موقع ملے گا۔مگر اس نے مجھے موقع دئے بغیر کہا کہ تم مسلمانوں نے جئے پور کے ادبی میلے میں سلمان رشدی کی شمولیت پر تو خوب واویلا مچایا اور کلکتہ میں بے چاری تسلیمہ نسرین کی کتاب کا اجراء نہیں ہونے دیا ۔مگر کیا تم نے ممبئی سے شائع ہونے والے۵؍ فروری کے سنڈے انقلاب میں معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق کو پڑھا۔میں کہا ہاں وہ مضمون جو اس نے ’’ غالب کے حضور میں ‘‘کے عنوان سے لکھا ہے ۔جس میں اس نے خیال غالب کے پردے میں جنت ،جہنم ،عبادت ،آخرت اور فرشتوں کا مذاق اڑایا اور کہنے کی کوشش کی ہے کہ میرے نزدیک برہمن اور مسلمان کا مذہب اور جنت جہنم کا تصور ایک ہی ہے ۔میں اس اعتبار سے غالب کو اپنا آئیڈیل مانتا ہوں کیوں کہ مجھے ذاتی طور پر غالب کی روایت شکنی مذہبی رواداری اور روشن خیالی سب سے جدا گانہ لگتی ہے۔اس میں کون سی بری بات ہے ،مصنف نے خود اپنے عقیدے کی ترجمانی اور اپنی جنت جہنم کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے اس خیال سے مسلمانوں کی دل آزاری کہاں ہوتی ہے۔شیطان نے جواب دیا بچہ شروعاتی دور میں جب بد تمیزی کرتا ہے تو اسے مذاق میں لیا جاتا ہے مگر اس کی یہی بد تمیزی رفتہ رفتہ اس کی عادت بن جاتی ہے اور پھر وہ اپنے ماں باپ کے خلاف بد تمیزی اور گستاخی کرنا شروع کر دیتا ہے ۔جو لوگ آج خدا کی تخلیق اور شعائر اسلام کا مذاق اڑا رہے ہیں کیا ضروری ہے کہ کل وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی توہین کے مرتکب نہ ہوں ۔ یہ سلمان رشدی ،تسلیمہ نسرین اور اسریٰ نعمانی اچانک تھوڑی بغاوت پر اتارو ہوگئے ۔میں نے بھی سوچا اور غور کیا کہ شیطان بھی کبھی کبھی سچائی بیان کر دیتا ہے اگر سلام بن رزاق کو حقیقت میں ہدایت کی تلاش ہوتی تو وہ اپنے مذہب اور عقیدے کی روشنی میں سب سے پہلے قرآن کو اپنا آئیڈیل بناتا جو کہ اس کے والدین کا بھی مذہب رہا ہوگا ۔مگر نیاز فتحپوری جیسے متنازعہ ادیب کی کتاب ’’من و یزداں‘‘ نے اس کے مذہبی عقائد پر پہلی ضرب لگئی اور اس نے غالب کے دیوان کے چند اشعار کو اپنا آئیڈیل بنایا جو کہ شراب کے نشے میں کہی گئی ہے جس میں غالب کا مرثیہ کم مایوسی اور اپنے عقیدے سے بیزاری زیادہ جھلکتی ہے۔جب کہ وہ خود بھی اپنے گمراہ ہونے کی دلیل اس طرح پیش کرتے ہیں کہ کعبہ کس منھ سے جاؤ گے غالب ؔ ۔۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب۔۔ تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
میں نے شیطان سے کہا کہ سلام بن رزاق کو یا تو قرآن سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے یا وہ اپنی بد کلامی کی وجہ سے ایک مقدس کلام کو ہاتھ لگامے سے ڈرتا ہے۔مگر غالب کے چند اشعار کو اپنا آئیڈیل بنانے سے تو بہتر تھا کہ وہ تمہیں اپنا آئیڈیل بنالیتا تم سے بہتر جنت ،جہنم اور فرشتوں کی حقیقت سے کون واقف ہے۔شیطان نے کہا عمر صاحب میں نے اللہ سے وعدہ کیا ہے کہ جیسے تو نے مجھے ذلیل و خوار کیا ہے میں تمہارے بندوں کو بھی تمہارے سامنے رسوا کرکے رہونگا۔جنہیں تونے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔آپ دیکھ سکتے ہیں انسانوں نے اللہ کے سوا سینکڑوں کے سامنے سر جھکانا شروع کر دیا ہے اور اپنے جیسے انسانوں کی پیروی کررہے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ اب انسانوں میں سے کچھ نے تو غالب اور سلمان رشدی جیسے شرابی مصنفوں اور شاعروں کو بھی اپنا آئیڈیل بنالیا ہے۔ٹھیک کہا شیطان تم نے لیکن قیامت بہت قریب ہے تمہارا اور تمہارے ساتھیوں کا سب کا فیصلہ بھی قریب ہے۔شیطان اپنی موت کا نام سن کر پاگل ہوجاتا ہے اور کہتا ہے قیامت کی بات مت کرو اس دن کا نام آتے ہی میری ساری آگ ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔آہ کتنا بدنصیب ہوں کہ میری ہزاروں سال کی زندگی خواب کی طرح گزر گئی مگر مجھ سے زیادہ بدنصیب تو انسان ہے جو صرف چند روز کی زندگی پاکر سرکشی پر اتارو ہے!!!
عمر فراہی۔موبائل،09699353811