#واہ رے انسانی #فطرت

عقیل قادر اوسلو
یہ مندر-درگاہ بھی کیا عجیب جگہ ہے
جہاں غریب باہر اور امیر اندر ‘بھیک’ مانگتا ہے ..
بارات میں دولہے پیچھے اور دنیا آگے چلتی ہے جبکہ میت میں جنازہ آگے اور دنیا پیچھے چلتی ہے ..
یعنی دنیا خوشی میں آگے اور غم میں پیچھے ہو جاتی ہے ..!
 
موم بتی جلا کر مُردوں کو یاد کرنا
اور موم بتی بجھا کر سالگرہ منانا ..!
 
عمر بھر اٹھایا بوجھ ایک کیل نے …
اور لوگ تعریف تصویر کی کرتے رہے ..
 
پازیب ہزاروں روپے میں آتی ہے، پر پیروں میں پہنی جاتی ہے
اور .
بندیا 1 روپے میں آتی ہے مگر پیشانی پر سجائی جاتی ہے
 
اس لئے قیمت معنی نہیں رکھتی قسمت معنی رکھتی ہے.
 
ایک دریچہ میں رکھے گیتا اور قرآن آپس میں کبھی نہیں لڑتے،
اور
جو ان کے لئے لڑتے ہیں وہ کبھی انھیں نہیں پڑھتے ….
 
نیم کی طرح کڑوا علم دینے والا ہی سچا دوست ہوتا ہے،
 
میٹھی بات کرنے والے تو چاپلوس بھی ہوتے ہیں.
 
تاریخ گواہ ہے کہ آج تک نیم میں کبھی کیڑے نہیں پڑے.
 
اور مٹھائی میں تو اکثر کیڑے پڑ جایا کرتے ہیں …
 
اچھے راستے پر کم لوگ چلتے ہیں لیکن برے راستے پر اکثریت چلتی ہے ……
 
اسی لیے شراب بیچنے والا کہیں نہیں جاتا،
 
پر دودھ بیچنے والے کو گھر گھر اور گلی کوچے بھٹکنا پڑتا ہے.
 
دودھ والے سے بار بار پوچھا جاتا ہے کہ دودھ میں پانی تو نہیں ڈالا؟
 
جبکہ شراب میں خود ہاتھوں سے پانی ملا ملا کر پیتے ہے..!
واہ رے انسانی فطرت……!
…..
الهی تیرے گناهگار بندے کهاں جائیں..
ادهر جینے کی پابندی..
ادھر مرنے کی پابندی..
اپنا تبصرہ لکھیں