|
جناب سیؔد افتخار عارف کی ایک اچھی ، دل کو چھو لینے والی غزل۔ شائد بہت سوں نے سنی ہو۔ سنی ہو تب بھی اچھی لگے گی، اور نہ سنی ہو تو بات ہی کیا ہے، مزا آ جاے گا، جی سنیے, حاضر ہے
شہرِ گُل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اسی خاک سے خوف آتا ہے
شکل بننے نہیں پاتی کہ بگڑ جاتی ہے
نئی مٹی کو نئے چاک سے خوف آتا ہے
وقت نے ایسے گھمائے افق، آفاق کہ بس
محورِ گردشِ سفاک سے خوف آتا ہے
یہی لہجہ تھا کہ معیارِ سخن ٹھہرا تھا
اب اسی لہجہ بے باک سے خوف آتا ہے
آگ جب آگ سے ملتی ہے تو لو دیتی ہے
خاک کو خاک کی پوشاک سے خوف آتا ہے
قامتِ جاں کو خوش آیا تھا کبھی خلعتِ عشق
اب اسی جامہِ صد چاک سے خوف آتا ہے
کبھی افلاک سے نالوں کے جواب آتے تھے
ان دنوں عالمِ افلاک سے خوف آتا ہے
رحمتِ سیدِ لولاک ﷺ پہ کامل ایمان
اُمتِ سیّدِ لولاکﷺ سے خوف آتا ہے