’Dr.Shehzad Basra
Faisalaabad
’میں چائینزنہیں کھاتی‘‘
’’ہاں بھائی فزا چائنیز بالکل نہیں کھاتی‘‘ ۔فزا کی ماں نے شرمندہ ہوئے بغیر بلکہ فخر سے اپنی لاڈلی بیٹی فزا کے بارے ارشاد فرمایا تو فزا کا نخرہ اور بھی بڑھ گیا۔
میرے بدن میں کاٹو تو لہو نہیں جیسی کیفیت۔اب کیا کریں۔ قصہ یوں ہے کہ ایک دوست کی فیملی سمیت دعوت کی اور ایک مہنگے چائنیز ہوٹل میں لے گئے۔ مینوکارڈ سامنے آیا تو ہم نے مہمانوں کو عرض کی کہ اپنی مرضی کے کھانے منتخب کریں تو ان کی 15سالہ بیٹی فزا انتہائی لاڈلہ لہجہ بنا کر بولی
’’میں چائینز نہیں کھاتی‘‘
دل میں آیا کہ کہوں کہ چائنیز ہوٹل میں پائے،نہاری، نان بھی ملتے ہوں گے وہ منگوالیتے ہیں۔
’’مگر یہ تو چائنیز ہوٹل ہے اور صرف چائنیز کھانے ہی پیش کئے جاتے ہیں۔ کیا آپ بالکل بھی نہیں کھاتی؟‘‘ ہم نے عاجزی سے کہا کہ شاید فزا کے والدین بیٹی کو تھوڑا سمجھائیں کہ بیٹا کوئی بات نہیں کھالو۔ مگر الٹا اس کی والدہ بولی
’’ہاں فزا تو بالکل ہی چائنیز نہیں کھاتی‘‘
’’تو آپ لوگ بھی نہیں کھاتے کیا؟‘‘ ہم نے پوچھا
’’نہیں ہم تو سب کھاتے ہیں،فزا نہیں کھاتی‘‘ والد صاحب گویا ہوئے اور لاڈ سے بیٹی کو ایسے دیکھا جیسے بتا رہے ہوں کہ سکول میں فرسٹ آئی ہو۔
’’اب پہلے ذرا بتادیتے تو کہیں اور چلے جاتے‘‘۔ میں مایوسی سے بولا۔
’’فزا آپ کیا تھوڑا بہت بھی چائنیز نہیں کھاتی؟‘‘ ۔ہم نے آخری کوشش کی مگر فزا سے پہلے اس کی والدہ صاحب فرمانے لگیں۔’’نہیں فزا تو (ماشااللہ) چکھتی بھی نہیں‘‘۔مجبوراً ہوٹل تبدیل کیا اور ڈنر کیا۔
شدید حیرت اور شرمندگی سی محسوس ہوئی کہ کیا یہ حرکت والدین کے منہ پر تمانچہ مارنے کے مترادف نہیں کہ ایک دعوت میں آپ کا بچہ صاف ہی انکار کردے۔ پسند نا پسند تو گھر میں ہوتی ہے مہمان داری میں میزبان کی توہین ہے کہ کھانے پسند یا بالکل ہی مسترد کیا جائے ۔ یہی تھپڑ اگر والدین نے فزا کو کبھی مارا ہوتا کہ مہمان کے سامنے یا دعوت میں انکار کربا خلافِ تہذیب ہے۔ خوش خلقی سے سب کھاتے ہیں اور یہ محفل کے آداب ہیں تو والدین اور ہمیں یہ نہ دیکھنا پڑتا۔مگر والدین تو جیسے اِس بات پر فخر کر رہے تھے۔
اگلے دن اسی فیملی کی گھر میں دعوت کی اور مکمل پاکستانی کھانے تیار کیے۔ کھانے کے بعد آئس کریم منگوائی تو فزا نے صرف ایک چمچ کھا کر کپ رکھ دیا اور بولی
’’میں تو نٹس والی آئس کریم نہیں کھاتی‘‘۔
لوجی ۔اب ایک اور مسئلہ۔اس کی ماں پھر پھر’’بچی‘‘ کی اعلیٰ تربیت کرتے ہوئے بولی
’’فزا تو نٹس والی آئس کریم بالکل نہیں کھاتی‘‘
’’فزا بیٹا۔آپ کو کیا ڈاکٹر نے منع کیے ہیں نٹس؟‘‘۔ہم نے پوچھا
’’نہیں انکل مجھے ویسے ہی نہیں پسند‘‘
’’ آپ کے دانتوں میں بادام پھنس جاتے ہوں گے ‘‘
’’نہیں تو‘‘
’’پھر الرجی ہوجاتی ہوگی‘‘
’’نہیں نہیں‘‘
بھائی آپ بچی کو کیوں ڈانٹ رہے ہیں۔فزا کی والدہ نے فزا کی حوصلہ افزائی کی اور بھر پور دفاع کیا۔خیر اور آئس کریم منگوانے کے لئے فلیور پوچھا تو فزا نے بڑے موڈ سے کہا’’مجھے مینگو اور ونیلا فلیور بالکل نہیں پسند‘‘
’’ماشا ء اللہ ،جیتی رہو۔آم اور ونیلا فلیور بھی کوئی انسانوں کے کھانے والی چیزیں ہیں‘‘ ہم نے فزا کو پیار دیتے ہوئے اُس کے دالدین کو مسکرا کر دیکھا جہاں شرمندگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
مہمانوں کا قیام تھا اور اگلی صبح ناشتہ کی میز پر آملیٹ جب رکھا گیا تو ساتھ آواز آئی ۔’’آپ لوگ شروع کریں۔بھابھی اور فزا کے آملیٹ الگ آرہے ہیں‘‘۔
’’ہائیں۔الگ کیوں؟ کیا میٹھے آملیٹ بن رہے ہیں یا چکن والے؟‘‘
’’دراصل بھابھی کو ٹماٹر اور ہری مرچ والا آملیٹ پسند ہے جبکہ فزا کو آملیٹ میں پیاز نہیں پسند‘‘
فزا بیٹا، پیاز تو سالن اور پلاؤ میں بھی ہوتا ہے تو کیا کوئی سالن چاول بھی نہیں کھاتی؟
’’ا س کا پتا نہیں،میں آملیٹ میں پیاز نہیں کھاتی‘‘ فزا نے اٹھلاکر کہا۔
’’کیا گلے میں پھنس جاتا ہے‘‘
’’نہیں مجھے پیاز والا آملیٹ نہیں پسند‘‘
’’گریٹ اگر ساری قوم فزا جیسا جذبہ رکھے تو بھارت سے پیاز نہ منگوانا پڑے‘‘۔ہم نے عرض کی
میزبان کو ہر بات پر شرمندہ کرنا شاید اب فیشن بنتا جارہا ہے اور والدین کو احساس تک نہیں کہ یہ اُن کی تربیت میں کمی ایک وجہ ہے۔
میں اٹھا اور کچن سے رات کی بچی ہوئی روٹی اور سرکہ کی بوتل لے آیا۔ کھانے کی میز پر رکھتے ہوئے فزا کے والدین سے بولا
’’میں معذرت خواہ ہوں مگر صرف 5منٹ دخل اندازی نہ کیجئے گا‘‘۔ سب حیرت سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔میں نے ایک پلیٹ میں سرکہ ڈالا اور فزا کے سامنے رکھ دیا اورسوکھی روٹی فزا کے ہاتھ میں پکڑاکو بولا
’’فزا بیٹا روٹی سرکہ سے کھائیں‘‘
فزا حیرت اور صدمے سے مجھے دیکھ رہی تھی اور پھر شکایتی نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔ میں نے فزا کی والدہ سے اشراتاً چپ رہنے کی اپیل کی۔
’’فزا بیٹا۔ اس دنیا میں سب سے زیادہ عزت اور شان آج تک کس کی ہوئی ہے‘‘۔ میں نے بڑے پیار سے پوچھا
فزا بولی۔’’نبی ؐ پاک کی‘‘۔
’’شاباش۔فزا بیٹا۔ نبیؐ جب کسی کے گھر تشریف لے جاتے ہوں گے تو گھروالوں کی کیا حالت اور کیفیت ہوتی ہوگی‘‘۔
’’انکل۔وہ تو خوشی سے پاگل ہوجاتے ہوں گے‘‘۔
’’بیٹا۔گھروالے نبیؐپاک کی کیسے خدمت کرتے ہوں گے‘‘۔
’’اچھے اچھے کھانے کھلا کر‘‘۔
’’فزا بیٹا۔ایک دفعہ نبی اکرمؐ ایک غریب صحابیہؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ صحابیہؓ کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔نبی اکرمؐنے خود فرمائش کی۔
’’کچھ کھانے کے لیے لائیں‘‘۔
غریب صحابیہؓ اپنے کچن میں تشریف لے گئیں تو غریبی اتنی تھی کہ دودھ،نہ کھجور،نہ گوشت،نہ ستو۔کچھ بھی نہ تھا۔آنکھوں میں آنسو آگئے کہ دوجہاں کے دولارے تشریف لائے ہیں اور پیش کرنے کے کچھ بھی نہیں۔ ایک صبح کی بچی ہوئی خشک روٹی پڑی تھی۔ روتے ہوئے وہی اُٹھالی۔اب ہمت نہ ہو کہ سوکھی روٹی کیسے پیش کروں۔کوئی سالن،شہد،دودھ کچھ بھی نہ تھا۔ ایک کونے میں تھوڑا سا سرکہ نظر آیا۔ گیلی آنکھوں سے بچارگی سے سوکھی روٹی اور سرکہ دوجہاں کے آقاؐ کی خدمتِ اقدس میں پیش کردیا۔
اللہ کے نبیؐ نے تو زندگی کے ہر پہلوکے لیے اپنی اُمت کے لیے ہدایت چھوڑی ہیں نہ۔آپؐ نے بالکل نہیں کہا کہ سالن کے بغیر یا گوشت کے بغیر میں کیسے روٹی کھاؤں یا یہ بہانہ بھی نہیں کیا کہ بھوک نہیں۔
آپؐ نے نہایت رغبت اور شوق سے روٹی سرکہ سے کھائی اور فرمایا
’’سرکہ تو ایک بہترین سالن ہے‘‘۔
اُن صحابیہؓ کے لیے دُعا کی
فزا اور اُس کی ماں سمیت سب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
فزا گیلی آنکھوں سے روٹی سے سرکہ کھارہی تھی۔