شورو شاعری فنون و آداب میں اعلیٰ درجے کا فن ہے۔حضرت عر نے شعرو شاعری کو ممنوع نہیں قرار دیا تھا۔مگر اسے پاکیزہ اور صاف ستھرا رکھنے کے لیے حدود مقرر فرمائے تھے۔اگر اس صنف ادب کو کھلی چھٹی دے دی جائے تو بسا اوقاتبندگان حرص و ہوس اسکا یاسا استعمال کرتے ہیں کہ شعر حکمت اور جذبہء ایمان پیدا کرنے کے بجائے عریانی و فحاشی و اور اخلاق باختگی کا باعث بن جاتا ہے۔کسی قوم کا ادب و شعر اس قوم کی اخلاقی حالت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔احساس ذمہ داری رکھنے والا حکمران اس معاملے میں کبھی بے اعتنائی نہیں برت سکتا۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے شعراء و ادباء فنکار و ہدائیت کار سبھی بے حیائی و عریانی پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ہمارے ممالک کے ذمہ داران کو کیا ہو گیا ہے۔برائی و سیاہ کاری کا دور دورہ ہے۔جہاں نیکیوں کی فصل بہار پروان چڑھ سکتی ہے وہاں برائیوں کا جھاڑ جھنکار کا ایک مہیب جنگل اگ رہا ہے۔جو وسائل تقویٰ کا پیغام عام کر سکتے ہیں ۔وہ برائی کے علمبردار بن چکے ہیں۔
اقتباس ۔۔شھیہدلمحرااب عمر بن الخطاب
از عمر تلمسانی