گزشتہ سال نو محرم کو میں مغرب سے کچھ پہلے اپنے بیٹے کو کربلا کی شب عاشوردیکھلانے کے لیے ہوٹل سے نکلا۔ میں نے کہا، آؤ تمھیں دکھاؤں کہ کربلا کی شب عاشور کیسی ہوتی ہے۔ یہاں شب عاشور سے عصر عاشور تک دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔
میں اس کا ہاتھ پکڑ کے چلا اورحضرت عباس کے روضے تک پہنچا تو احساس ہوا کہ رش بڑھ چکا ہے اور اتنے رش میں بچے کو ساتھ لے کر نکلنا ٹھیک نہیں تھا۔ میں نے واپسی کا راستہ اختیار کرنا چاہا لیکن ہجوم اتنا تھا کہ پریشان ہوگیا۔ اب میں راستہ لمبا کرتا جا رہا تھا لیکن جس طرف منہ کرتا، ہزاروں اور لاکھوں کا مجمع دکھائی دیتا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ہم دونوں چاروں طرف سے ہجوم میں پھنس گئے اور مجھے خطرہ ہوا کہ میرا بیٹا حبس سے بے ہوش نہ ہو جائے۔
بڑی مشکل سے ہم ایک تنگ اور تاریک گلی میں گھسے۔ اب میں بڑی شارع پر نہیں آنا چاہتا تھا۔ اندر ہی اندر ہوٹلوں اور گلیوں سے دور سے دور ہوتا چلا گیا۔ کہیں کسی گلی میں نیاز پک رہی تھی، کہیں شربت تقسیم ہورہا تھا، کہیں عرب لڑکے زور زور سے باتیں کررہے تھے۔ میں راستہ بھول چکا تھا۔
اچانک مجھے ایک خیال آیا۔ اپنا بٹوہ کھولا اور اس میں سے وہ کاغذ نکالا جس پر بزرگ نے کئی سال پہلے دعا لکھ کر دی تھی۔ ابھی میں وہ دعا پڑھ بھی نہیں سکا تھا اور کاغذ پر نظر ہی ڈالی تھی کہ ایک شخص نے میرا باز پکڑکر کہا ، یا اخیی خیام قیام میں نے چونک کر دیکھا، سڑک کے دوسری جانب خیام کی پختہ عمارت تھی۔ اسی گلی میں ہمارا ہوٹل تھا۔ وہاں رش نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ میں نے سکون کا سانس لیا پھر مڑ کر اس شخص کا شکریہ ادا
-کرنا چاہا لیکن وہ تاریک گلی میں تحلیل ہوچکا تھ
JAZAKALLAH Bhai
Wo Dua To Naqal Kar Dete Saath
ji bilkul sahi kha ap nai imran bhai..