کئی دنوں سے
مجھے وہ میسج میں لکھ رہی تھی
جنابِ عالی
حضورِ والا
بس اک منٹ مجھ سے بات کر لیں
میں اک منٹ سے اگر تجاوز کروں
تو بے شک نہ کال سننا
میں زیرِ لب مسکرا کے لکھتا
بہت بزی ہوں
ابھی نئی نظم ہو رہی ہے
وہ اگلے میسج میں پھر یہ لکھتی
سسکتی روتی بلکتی نظموں کے عمدہ شاعر
تم اپنی نظمیں تراشو لیکن
کبھی تو میری طرف بھی دیکھو
کبھی تو مجھ سے بھی بات کر لو
بس اک منٹ میری بات سن لو
میں ہنس کے لکھتا
فضول لڑکی
بہت بزی ہوں
بس اک منٹ ہی تو ہے نہیں ناں
وہ کئی دنوں تک خموش رہتی
پھر ایک دن میں نے اس کی حالت پہ رحم کھا کر
جواب لکھا
بس اک منٹ ہے
اور اک منٹ سے زیادہ بالکل نہیں سنوں گا
تو اس نے اوکے لکھا اور اک دم سے کال کر دی
میں کال پک کر کے چپ کھڑا تھا
وہ گہرا لمبا سا سانس لے کر
اداس لہجے میں بولی سر جی
میں جانتی ہوں کہ اک منٹ ہے
اور اک منٹ میں
میں اپنے اندر کی ساری باتیں کسی بھی صورت نہ کہہ سکوں گی
سلگتی ہجرت زدہ رتوں کو اداس نظموں میں لکھنے والے
عظیم شاعر
خدا کی دھرتی پہ رہنے والے
اداس لوگوں کا دکھ بھی لکھنا
کبھی محبت میں جلتے لوگوں کا دکھ سمجھنا
ابھی تو آدھا منٹ پڑا تھا
مگر وہ لائن سے ہٹ چکی تھی
وہ اک منٹ کی جو کال تھی ناں
وہ تیس سیکنڈ میں کٹ چکی تھی
میں کتنے برسوں سے اگلا آدھا منٹ گزرنے کا منتظر ہوں
وہ نرم لیکن اداس لہجے میں بولتی ہوئی
اداس لڑکی مری سماعت کے
ادھ کھلے در سے یونہی اب تک لگی ہوئی ہے
ہٹی نہیں ہے
بہت سے سالوں سے چل رہی ہے
وہ کال اب تک کٹی نہیں ہے
—