انتخاب ساجدہ پروین
مئی ۲۰۱۶ ء کی بات ہے، نیو یارک کے ایک گھر میں مجھے ملاقات کے لیے بلا یا گیا۔ دیگر لوگو ں کی طرح میزبان بھی یورپ میں اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان تھیں اور وہ مجھ سے اس لیے ملنا چاہتی تھیں کہ ۲۰۰۵ء، ۲۰۰۶ء میں ڈنمارک کے اخبار میں چھپنے والے کارٹون کے معاملے کی وجہ سے میرا نام بھی مرکزی کردار کے طور پر سامنے آیا تھا۔یہ تنازعہ بھی اسلام، سیکولر نظریات اور آزادی اظہار ائے کے مابین ہونے والے تصادم میں سے ایک تھا۔
ایک شخص جس سے میں کبھی نہیں ملا تھا، کمرے میں داخل ہوا۔ وہ میرا ہم عمر ہی تھا یا شاید مجھ سے بڑا ہوگا۔ اس کا چہرہ گلابی تھا، بال لمبے اور عمر کے مطابق سفید تھے۔
گفتگو کے دوران انہوں نے اپنا تعارف اسٹیو کے نام سے کروایا۔ آخری نام بینن تھا،اور وہ اس وقت Breitbart News کے انتظامی سربراہ تھے(یہ امریکی خبروں کے حوالے سے یورپ میں سب زیادہ پذیرائی حاصل کرنے والی ویب گاہ کے طور پر مشہور ہے)۔ چند ماہ بعد بینن، ٹرمپ کی صدارتی مہم سے منسلک ہو گئے اور ان کے مشیر خاص بن گئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
ٹرمپ کی حکومت کے چند ہی ہفتوں میں یہ بات سامنے آگئی کہ بینن وائٹ ہاوس میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیت بن چکے ہیں۔اس نے صدر کی وہ تقریر لکھی تھی جس میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکا میں قتل عام بند کیا جائے گا اور امریکا کو عالمی شکنجوں سے نکال کر دوبارہ اس کی اصل حالت میں کھڑا کیا جائے گا۔بینن صدر کے وہ واحد سیاسی مشیر ہیں جنھیں قومی سلامتی کونسل میں نشست ملی ہے۔ شامی مہاجرین اور سات مسلم ممالک کے شہریوں کی آمدورفت پر پابندی والے معاملے کے پیچھے بھی بینن کا دماغ ہے۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے ایک اداریے میں بینن کو ’’حقیقی صدر‘‘ قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ ’’ٹائم میگزین‘‘ نے بینن کی تصویر کو سرورق پر جگہ دی اوران کو ’’جوڑ توڑ کا ماہر‘‘ قرار دیا۔
جب ہماری ملاقات ہوئی تھی اس وقت، بینن کینز فلم فیسٹیول (فرانس) سے آیا تھا، جہاں اس کی فلم ’’کلنٹن کیش‘‘ دکھائی گئی تھی۔ ہماری گفتگو اچھے ماحول میں ہوئی مگر بعض اوقات ماحول گرم بھی ہوجاتا تھا۔ بینن بظاہر یہ سمجھ رہے تھے کہ اسلامی شدت پسندی، یورپ میں مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور ان سے نمٹنے کی حکمت عملی جیسے موضوعات پر ہم ایک ہی جیسے خیالات رکھتے ہیں۔مگر جب بینن کو اس بات کا ادراک ہو ا کہ ہمارے نظریات اور خیالات میں فرق ہے تو ان کے انداز گفتگو میں شدت پیدا ہوگئی۔ بینن بہت پرجوش تھے اور مدلل انداز میں اپنی بات کررہے تھے۔ وہ گفتگو کے درمیان تحقیرِ مذہب سے بھی گریز نہیں کر رہے تھے۔
مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ جس شخص سے میں آج تک نہیں ملا، وہ میرے مخالف خیالات سن کر کتنے جارحانہ انداز میں اختلاف کر رہا ہے۔ بینن اخلاقیات کا خیال کیے بغیر سامنے والے کو دبانے والے انداز میں بات کرتا ہے۔ میں پریشان نہ ہوتی، جو کچھ وہ کہہ رہا تھا، اگر وہ عجیب نہ ہوتا اور خاص طور پر اس وقت کہ جب وہ امریکا کا اہم پالیسی ساز ہے۔
بینن بہت غصے میں تھا اور اس کے غصے کی وجہ ’’گلوبلائزڈ اشرافیہ‘‘ تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا صدر بننا تو صرف نکتہ آغاز ہے اس بغاوت کا، جو آنے والے عرصے میں اور متشدد ہوجائے گی۔ یعنی اس کا کہنا تھا کہ ٹرمپ منزل نہیں بلکہ یہ تو صرف آنے والے دنوں کی ایک جھلک ہے۔ ’’تم انتظار کرو اور دیکھتے جاؤ آگے ہوتا کیا ہے‘‘۔ بینن کا کہنا ہے کہ اس نے امریکا کا دورہ کیا اور عام امریکی شہریوں سے ملاقات کی جو اپنے آپ کو معمولی، کمزور اور لوٹ کھسوٹ کا شکار سمجھتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظا م اپنے رستے سے ہٹ چکا ہے اور اسے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کی نظر میں اس کاآغاز ۰۹۔۲۰۰۸ء کے مالیاتی بحران سے ہوا اور وال اسٹریٹ کے معاملے میں حکومت کے اقدام نے امریکیوں کو مزید مایوس کیا۔
رونلڈ رادوش، سماجیات کے تاریخ دان جو کہ ہڈسن انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہے۔ اس نے حال ہی میں لکھا ہے کہ جب نومبر ۲۰۱۳ء میں ان کی بینن سے ملاقات ہوئی تو انھیں بینن ’’لیننسٹ‘‘ (Leninist) معلوم ہوا۔ بینن نے ان خیالات کا اظہار اس طرح سے کیا کہ ’’لینن ریاست کو تباہ کرنا چاہتا تھا اور میرا مقصد بھی یہی ہے کہ ہر اس چیزکو تباہ کردیا جائے، جو اسٹیبلیشمنٹ کا حصہ ہے‘‘۔
بینن نے گفتگو کے دوران لینن کا تذکرہ نہیں کیا مگر اس کا انقلابی اور باغیانہ انداز بہت کچھ بتا رہا تھا۔ بینن اپنے نظریات میں لیننسٹ بالکل بھی نہیں ہے مگر اس کی یہ بات کہ دنیا کواچھا کرنے کے لیے تباہی کی ضرورت ہوتی ہے، لینن کی سوچ کی ترجمان ہے۔
مجھے جس بات نے پریشان کیا وہ بینن کا یہ خیال ہے کہ تشدد اور جنگ سے دنیا میں امن و سکون آسکتا ہے اور ازسرنو تباہی کے بعد نئی تعمیر و ترقی کا آغاز ہوگا۔ اس کی نظر میں یورپ کے اندر عیسائیت کا کمزور پڑنا ٹھیک نہیں اور یہ مسلمانوں کی آمد کا نتیجہ ہے۔
بینن کا اس بات پر یقین ہے کہ اگر یورپ کو اسلام سے بچانا ہے تو مسلح جنگ کے بغیر یہ کام ممکن نہیں۔ اسلام کی قوت امن کے ذریعہ سے ختم نہیں ہوگی۔ مختصراً یہ کہ مغرب اسلام کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے۔
میں نے عاجزانہ طورپر اختلاف کیا۔میں نے اس سے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم تشّدد پسند مسلمان گروہوں سے حالتِ جنگ میں ہیں اور ایسے پرامن مسلمانوں سے بھی سرد جنگ کر رہے ہیں جو چاہتے ہیں کہ سیکولر نظریات کا پرچار نہ ہو، مگر ہماری یہ جنگ کسی صورت بھی ’’اسلام‘‘ کے ساتھ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی محاذوں پر سرد جنگ لڑی جاچکی ہے مگر درحقیقت وہ جنگ نظریات کی جنگ ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح ’’اسلام ازم‘‘ سے نمٹنے کے لیے بھی ہمیں انہیں سیاسی محاذ پر ’’اسپیس‘‘ دینی ہو گی۔ اور یہ اسلام کے ساتھ کھلی جنگ کی صورت کسی طور ممکن نہیں ہو گا۔
بینن نے مجھ سے اختلاف کرتے ہوئے ہاتھ ملایا اور یہ کہتے ہوئے چل دیا کہ میری خواہش ہے کہ تمہاری سوچ کے مطابق مسئلے کا حل نکل آئے، لیکن مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اس طرح مسئلہ حل ہو گا نہیں‘‘۔
(ترجمہ: عبدالرحمن)