آہ شیخ احسان صاحب

afkare tazaشیخ احسان جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے میرے بہت اچھے دوست اور اس بڑھ کر یہ کہ وہ بہت ہی اچھے انسان تھے۔ جب وہ اس دار فانی کو چھوڑ کر رخصت ہورہے تھے تو ہر شخص ان کی جدائی پر دکھی تھا ۔ وہ بہت بااخلاق، بامروت، مہمان نواز، علم دوست اور بہت اچھی شخصیت کے حامل تھے۔ کالم نگاری ہمارے درمیان وجہ مشترک تھی اور اسی کی بدولت ہم ایک دوسرے سے متعارف ہوئے۔ ان کی تحریریں اسلامی رنگ میں ڈھلی ہوئی ہوتی تھیں۔ ناروے میں پاکستانیوں کے شب و روز اور ان کے مسائک کو وہ خوب اجاگر کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے تخلیق آدم پر ایک خوبصورت مضمون لکھا لیکن اس کے ایک پہلو سے مجھے اختلاف تھا جس کا میں نے ان سے اظہار کیا۔ انہوں نے نہایت شفقت اور محبت سے میرا نقطہ نظر سنا اور بحث برائے بحث کرنے کی بجائے میرے ساتھ اتفاق کیا۔ اس کے بعد ان کے ساتھ تعلق اور بھی قریبی قائم ہوگیا لیکن ہماری ملاقات نہ تھی۔ دوسال قبل میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ناروے گھمونے پھرنے گیا اور انہیں فیس بک کی وساطت سے علم ہوا کہ ہم اوسلو میں ہیں۔ انہوں نے فوراََ فون کیا اور گھر آنے کی دعوت دی۔ ہمارے پاس اگرچہ وقت کم تھا لیکن پھر بھی ان کی پر خلوص دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ان کے ہان چلے گئے۔ یہ پہلی ملاقات تھی جو ہمیشہ یاد رہے گی۔ بھابی اور انہوں نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا اور ساتھ یہ گلہ بھی کیا کہ سویڈن تو ناروے کے قریب ہی ہے تو پھر ملاقات کیوں تاخیر سے کی۔ انہوں نے پرتکلف چائے کے بعد ہمیں تحائف دے کر رخصت کیا۔
جب میری پہلی کتاب افکار تازہ شائع ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئے اور مبارک باد کا پیغام بھیجا۔ گذشتہ برس اگست میں اوسلو کی ادبی تنظیم دریچہ کے تحت میری کتابوں کی تقریب رونمائی میں تشریف لائے اور ایسا جامع اور سیر حاصل تبصرہ پیش کیا جو محفل میں شریک ہر ایک نے سراہا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ افکار تازہ میرے بیڈ کے ساتھ میز پر رکھی ہے اور اسے مکمل مطالعہ کی کے بعد ہی تبصرہ لکھا جو بعد میں اخبارات میں شائع بھی ہوا۔ ان کا ایک جملہ مجھے بہت پسند آیا اور ہمیشہ ذہن نشین رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ افکار تازہ بارہ مصالحوں سے بنائی گئی وہ خوش ذائقہ اور تیکھی چاٹ ہے جس میں قارئین کو عارف کسانہ کی حوصلہ افزا باتیں ملیں گی اور جن سے آپ انسانی مستقبل کو روشن پائیں گے۔ بعض اوقات آپ کو کڑوی اور کسیلی باتیں بھی ملیں گی کو مجبور، لاچار اور بے کس لوگوں کا درہے جسے آپ بھی محسوس کرسکیں گے۔ انہوں نے میری اس قدر پذیرائی کہ چھ کتابیں خرید لیں تاکہ دیگر احباب کو تحفہ دے سکیں۔تقریب رونمائی سے فارغ ہوکر انہوں نے اپنے گھر پر تکلف چائے کی دعوت دی جس میں دریچہ کے صدر ڈاکٹر سید ندیم حسین، جنرل سیکریرٹری محمد ادریس، کشمیری رہنماء محمد فاضل مغل اور کچھ اور احباب مدعو تھے۔ اگلے روز ہم سب فاضل مغل کے ہاں شام کے کھانے پر بھی جمع ہوئے اور خوب باتیں ہوتی رہیں۔اگست میں اوسلو میں سالانہ پاکستان میلہ بھی ہوتا ہے اور شام کو وہ ہمیں میلہ دیکھانے لے گئے ۔ اس طرح ان دنوں ہماری ان سے خوب گپ شپ رہی لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی۔ ہمیں ناروے کے شمال میں سیر کے لئے جانا تھا۔ انہوں نے ہماری پوری رہنمائی کی اور جب تک ہم سویڈن واپس نہ آگئے برابر فون کرکے پوچھتے رہے۔
اپنی وفات سے کچھ دن قبل فون کیا اور اپنی بیماری کا ذکر کیا کہ منہ میں سرطان کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے اور جراحی متوقع ہے۔ اس کے بعد فون پر بات نہ ہوسکی لیکن پیغام رسانی سے باہم رابطہ میں رہے کہ اچانک ان کے انتقال کی اندو ناک خبر ملی۔ دل بہت مغموم ہوا لیکن رضائے الہی کے سامنے سر تسلیم خم ہے۔ شیخ احسان لکھنے والے اور ایک لکھنے والا ہمیشہ
اپنی تحریر سے ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔ شیخ احسان انہی میں سے ایک ہیں۔ ہفتہ 20 اپریل کو وہ جہان فانی سے رخصت ہوئے لیکن اپنی تحریروں سے ہمیشہ یاد رہیں گے۔ وہ بہت اچھے کالم نگار اور صحافی تھے۔ نہایت اچھے اعلٰی اخلاق حامل تھے اور بہت مہمان نواز۔
اللہ تعالی آپ کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا کرے اور اہل خانہ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق دے امین

اپنا تبصرہ لکھیں