ایک مستری کی کام سے بیزاری اور اکتاہٹ اپنی انتہاء پر تھی. اس سے پہلے کہ کوئی بدمزگی پیدا ہوتی، اس نے ٹھیکیدار کو جا کر اپنا استعفیٰ پیش کردیا.
ٹھیکیدار ایک رحم دل اور شفیق انسان تھا. اس کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک کاریگر تھا مگر اس مستری کی کچھ انوکھی ہی بات تھی. جہاں تک معاوضے اور دستور کے مطابق بودو باش کی سہولیات تھیں، ٹھیکیدار نے اسے ویسے ھی خوب نوازا ہوا تھا. اس مستری کی کام سے لگن اور محنت بھی قابل رشک تھی مگر ایک دن یہ بھی داغ مفارقت دے جائے گا، اس کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا تھا.
ٹھیکیدار نے استعفیٰ لیتے ہوئے مستری سے کہا. “جاتے جاتے ایک آخری مکان اپنے ہاتھ سے بنا کر دیتے جاؤ تو میں یہ استعفیٰ قبول کر لیتا ہوں” بادل ناخواستہ مستری کو کہنا ماننا پڑا.
مکان کی بے تکی بناوٹ، اکھڑے پلستر، کٹے پھٹے رنگ و روغن اور دروازے کھڑکیوں کے شکستہ کیل پرزوں کے ایک ایک زاویئے سے مستری کی اکتاہٹ دکھائی دیتی تھی. صاف لگتا تھا کہ اس نے یہ کام فرض سمجھ کر نہیں، جان چھڑانے کیلئے وبال سمجھ کر کیا هے.
مکان کیا تھا کہ گویا چند برساتوں کی مار اب گرا کہ تب گرا. ٹھیکیدار کو مکان کی چابیاں دیتے ہوئےجیسے ہی مستری نے اپنے استعفٰی کا مطالبہ دہرایا، ٹھیکیدار نے شفقت کے ساتھ چابیاں واپس مستری کو دیتے ہوئے کہا “میں تیرا استعفیٰ قبول کرتا ہوں اور یہ والا آخری مکان تیرے لئے میری طرف سے انعام هے!”
اب مستری دم بخود حالت ایسی کہ جیسے بدن میں جان ہی نہیں. یا اللہ! یہ کیا ہو گیا؟ میں نے کیوں اپنے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا. اگریہی مکان میرا مسکن بننا تھا تو میں نے اسے اچھا کیوں نہیں بنایا. لوگوں کی زندگیوں میں رنگ بھرتا رہا اورخود اپنے لیے یہ بدرنگی کر ڈالی، کاش ! کاش ! کاش ! مگر صرف حسرتیں تھیں !!!
کچھ ایسی ہی مثال ہماری زندگی میں کیے گئے اعمال اور خاص طور پر نماز کی ہوتی هے جس سے اللہ رب العزت تو بے نیاز هے مگر ہم ان سب کو اچھا کرنے کے محتاج ہیں. انہی پر ہی ہماری عاقبت اور آخرت کا دارومدار ہوتا هے مگر ہم ہیں کہ جان چھڑاتے ہیں. لاکھ سمجھایا جاتا هے کہ اچھے طریقہ سے اپنا فرض ادا کرو، اچھے طریقہ سے پیش کرو، سمجھ ہی نہیں آ رہی.
کاش اس وقت سے پہلے سمجھ آ جائے جب صرف ندامت، شرمندگی اور پچھتاوا ہوگا…