اللہ کریم کو اپنے بندوں سے بہت محبت ہے اوروہ نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بندہ نارِ جہنم کا ایندھن بنے، اِسی لئے اس نے اپنے انبیاے کرام کے ذریعے اپنے بندوں کے لئے جنت کے راستے ہموار کئے اور ایسے ایسے عظیم اور آسان طریقے اور ذرائع مقرر کئے کہ جنہیں اپناکر انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجاتا ہے، دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی سے محفوظ ہوجاتاہے اور جنت الفردوس اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اُن طریقہ جات اور ذرائع میں سے قربانی کرنا بھی ایک ایسا عظیم الشان عمل ہے کہ جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی قربت نصیب ہوجاتی ہے اور اس کی دنیا و آخرت بھی سنور جاتی ہے۔
?لفظ ِ’ قربانی’ کامعنی و مفہوم
لفظ قُرْبَانِيّ قَرَبَ یَقْرُبُ سے مصدر بر وزن فُعْلان ہے جبکہ بعض اقوال کے مطابق یہ لفظ صیغہ اسم فاعل بروزن ضُربان ہے اور بعد میں اس کے آخر میں یاے نسبتی لگا دینے سے لفظ قُرباني بن گیا۔ 1
اب یہ لفظ اُن جانوروں کے لئے عَلم کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جو عیدالاضحی کے دن اللہ تعالیٰ کے لئے ذبح کئے جاتے ہیں ۔ اس اعتبار سے قُربانی کا معنی یہ ہوا کہ قریب کردینے والی۔کیونکہ یہ عمل انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کردیتا ہے، اس لئے اسے قربانی کہتے ہیں ۔
?قربانی کی ابتدا
?قرآنِ حکیم کی اس آیت ِمبارکہ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُواٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَـٰمِ ۗ…﴿٣٤﴾…سورة الحج
سے معلوم ہوتاکہ قربانی شروع ہی سے ہر اُمت یعنی ہر قوم پر مقرر کی گئی تھی جبکہ قربانی دینے کے طریقے مختلف تھے۔ قرآنِ مجید میں یہ مذکور ہے کہ سب سے پہلے ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی پیش کی، ایک بیٹے کی قربانی قبول ہوگئی جبکہ دوسرے کی ردّ کردی گئی۔ قربانی کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا، یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے پیارے لخت ِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اللہ کی راہ میں پیش کردی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کو شرف ِ قبولیت بخشتے ہوئے ان کے بیٹے کی جگہ جنت سے بھیجے گئے دُنبے کو ذبح کروا دیا۔
قربانیوں کا یہ سلسلہ بدستور جاری رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیم وسلم کو بھی بذریعہ وحی قربانی دینے کا حکم فرمایا:
?إِنَّآ أَعْطَيْنَـٰكَ ٱلْكَوْثَرَ ﴿١﴾ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَٱنْحَرْ ﴿٢﴾…سورة الکوثر
”اے محمد صلی اللہ علیم وسلم ! ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا فرمائی، لہٰذا آپ اپنے ربّ کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی بھی دیں ۔”