وہ اداسی سے میرے سامنے آ کر بیٹھ گئی !
میں نے ناک کی نوک پر دھرے چشمے کے اوپرسے اسے مسکرا کر دیکھا اور سمجھ گیا کہ آج پھر موسم ابر آلود ہے ممکن ہے گرج چمک کے ساتھ بارش بھی ہوئی ہو مطلع صاف ہونے میں وقت لگے گا
اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا اس نے ہاتھ بڑھا کر میرا لیپ ٹاپ بند کر دیا اور بولی
“ماموں میں آج بہت اداس ہوں ”
میں نےاس کے سر پر چپت لگائی اور کہا
“لو تو اس میں کون سی نئی بات ہے؟”
نہیں کریں ناں بھئی؟
وہ مصنوعی ناراضگی سے بولی
تو میں نے پیار سے اسے اپنے قریب کر لیا
“اچھا بتاو کیا بات ہے ہم ہیں نا !
دیکھو ہم ماموں ہی نہیں پکے والے دوست بھی تو ہیں “?
میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
کچھ دیر دیکھتا رہا مگر آج وہ کافی اداس تھی مین نے کہا
“ہوا کیا ہے باجی؟
بہن سے پانی پت کی لڑائی ہوئی ہے یا امی نے آئی ایم ایف کی طرح فنڈ منظور کرنے سے انکار کر دیا ہے
وہ بولی
“نہیں بھئی”
میں نے کہا
اچھا کچھ بولو تو؟
ماموں آخر یہ میری فرینڈز ایسی کیوں ہیں مجھے سمجھتی ہی نہیں اور پھر
شکایتوں کا پنڈورا بکس کھل گیا میں توجہ سے سننے لگا مجھے معلوم تھا بیٹیوں کا ادھا مسئلہ سننے سے حل ہو جاتا ہے جب وہ خوب بول کر چپ ہوئی تو بادل کافی چھٹ چکے تھے ?میں نے دو انگلیوں سے اس کی ناک پکڑی اور کہا بس؟
کچھ اور؟
اس نے نفی میں سر ہلا دیا میں نے کہا دیکھو میری پیاری ایک گاوں میں آگ لگ گئی سارے گاون والے بھاگ گئے مگر وہاں ایک اندھا تھا اور ایک لنگڑا وہ باقی رہ گئے لنگڑے نے اندھے سے کہا جان بچانی ہے تو مجھے کندھے پر بٹھا لو مین راستہ بتاون گا تم چلنا ہم دونون بھی بچ جائیں گے اور پھر یہی ہوا وہ دونون بھی بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔۔۔۔کہانی ختم
مگر اس کہانی سے میرا کیا تعلق ؟
وہ حیرت سے بولی
میں نے مسکرا کر کہا
ہے نا تعلق!
دیکھو بیٹی زندگی میں ہم میں سے کوئی مکمل نہیں ہر ایک میں خامیاں ہیں اور اچھی زندگی کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اردگرد موجود لوگوں کی خامیوں کے ساتھ چلنا سیکھیں دیکھو پرفیکٹ تو یہاں کوئی بھی نہیں
جب بھی دوسروں کے عیب برے لگنے لگیں تو خود سے پوچھو کہ کیامیں پرفیکٹ ہوں؟ نہیں تو پھر بس دوسرا بھی نہیں ہے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ گزارا کرنا ہو گا۔۔۔۔
دیکھو بیٹی دوسرون کی خوبیوں اور اپنی خامیوں ہر نظر رکھو ان کی وکیل اور اپنے لئے جج بنو انہیں رعایت دو تب ہی زندگی اچھی گزر سکے گی۔۔۔
مین نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا میری بچی اس دنیا میں ساری خواہشات تو بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتیں نہ ہی ہم سب کو اپنی پسند کے لوگ اپنے اردگرد جمع کرنے کا موقعہ ملتا ہے ہمیں اکثر بس “گزارہ ” کرنا ہوتا ہے اپنی مرضی تو بس جنت میں چلے گی اور خووووب چلے گی
وہ مسکرا دی۔۔۔۔