بیٹی کے ساتھ جنسی بداخلاقی کے الزام کے مقدمے کی سماعت کے دوران الزام لگانیوالی والدہ کے سچ اگلنے پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی آبدیدہ ہوگئے، دوران سماعت لڑکی کی جانب سے نزیراں ملک ایڈووکیٹ جبکہ بچی کے والد مجرم جو کہ اسلام آباد پولیس میں بطور کانسٹیبل تعینات تھا کی جانب شاہد نذیر خان ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
تفیصلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل سنگل رکنی بینچ نے بیٹی سے بداخلاقی کے الزام میں ماتحت عدالت سے 25سال قید کی سزا دئیے جانے کے خلاف دائر کی گئی اپیل پر سماعت کی۔ دوران سماعت والدہ کی جانب سے عدالت میں سچ اگلنے پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی اس وقت آبدیدہ ہوگئے جب بچی کی والدہ نے عدالت کو بتایاکہ وہ اپنے دوست کے ساتھ دوسری شادی کرنا چاہتی تھی اس لئے اپنے شوہر کے خلاف جھوٹا الزام لگایا جس پر شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو شرم نہیں آئی ،اپنے شوہر پر اتنا بڑا جھوٹا الزام لگایا جس سے نہ صرف اس کی نوکری چلی گئی بلکہ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے جل رہا ہے، آپ کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے جس پر خاتون کی جانب سے عدالت سے معافی کی استدعا کردی گئی ۔
بعدازاں عدالت نے سچ سامنے آنے کے بعد پولیس کانسٹیبل کو بری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا ۔واضح رہے نجی ٹی وی پر پروگرام نشر کئے جانے کے اسلام آباد کے تھا نہ کورا ل پولیس نے باعزت بری ہونے والے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
Post Views: 84