باعث افتخار
انجینئر افتخار چودھری
آج اٹھائیس سال ہو گئے والد محترم کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔یہی عصر کا وقت تھا میں قبلہ والد صاحب کے پاس اتفاق ہسپتال میں تھا ان کے گلے کا آپریشن ہوا تھا خون رک نہیں رہا تھا جس ڈاکٹر نے آپریشن کرنا تھا وہ عین وقت پر نہ آ سکے اور کسی اورا ناڑی نے آپریشن تھیٹر میں آپریشن کر دیا۔اتفاق ہسپتال ماڈل ٹاؤن لاہور کو قتل کرنے کے لائیسینس اس وقت بھی تھا اور شائد اب بھی یہ کام جاری و ساری ہے۔اس زمانے میں ایک خطیر رقم بٹوری گئی۔ڈاکٹر راؤنڈ پر تھے پوچھا کیا خون کی ضرورت ہے بولے جی ہاں بندوبست کر لیجئے بڑے بھائی کو کہا اور وہ خون لینے چلے گئے پھر ہوا یوں کہ میری دنیا کے رکھوالے بستر سے سر اٹھا کے اٹھے زور سے سانس لیا اور میں نے اونچی آواز میں کلمہ شہادت پڑھا اور دل کی دنیا اندھیر ہوئی۔یہ ہوتا ہے اس ملک میں۔پتہ نہیں کتنے ہی لوگوں کو ڈھیروں روپے لینے کے بعد اللہ کی مرضی کہہ کر چپ کرا دیا جاتا
ہے۔ان لمحات میں شور کرنا مناسب نہیں ہوتا بھائی جان کو فون کیا انہوں نے پوچھا کیا حال ہے بتا دیا اب وہ سکون میں ہیں اور خون کی کوئی ضرورت نہیں آ جائیے گھر جانا ہے۔
ہم بنیادی طور پر ہزارہ کے ہیں ہے بہت خوبصورت زمین ہزارہ یہاں آدمی کا ہے مشکل گزارہ
گزر اوقات ہوتی تو ہزاروں فرزندان ہزارہ نگر نگر مک ملک خاک نہ چھانتے یہاں کے جاگیر داروں کے پیٹ ہی نہیں بھرتے اسی لئے جدھر بھی جاؤ ہزارے والے روٹی ٹکڑ کی تلاش میں مل جاتے ہیں۔والد صاحب بھی اپنے بڑے بھائی چودھری عبدالغفار گجر کے ساتھ گجرانوالہ آ بسے ایک بڑا بھائی چھوٹے کی انگلی پکڑتا ہے سو انہوں نے پکڑی۔پہلے کامونکی میں ایک آڑھتی کے ساتھ بعد میں کچے دروازے میں فیروز خان میٹل ورکس میں شراکت کی بعد میں چوہان میٹیل ورکس الگ سے برتن بنانے کی فیکٹری بنا لی۔بڑی با رعب شخصیت تھے قد کاٹھ کوئی پانچ فٹ دس انچ کے قریب تھا جناح کیپ پہنتے۔رنگ گندمی۔بڑے معاملہ فہم،زیرک انسان تھے۔اپنے