’’قدیم کویتی روایت میں گزرے چند یادگار لمحات‘‘

قسط نمبر ۱
صحرا میں لگے کیمپ دیکھ کرمحسوس ہوا کہ جیسے حقیقت میں ریت پر شہرآباد کیا گیا ہے
شاندار کھانے اور اعلیٰ انتظامات نے جہاں بے حد سکون اور خوشی بخشی، وہیں اپنے ملک کے حالات نے اُداس بھی کیے رکھا
رومانہ فاروق:(کویت )
romanafarooq@hotmail.com
المخیم الربیعی یوم السبت الموافق مارس 2010، م لجمیع موظفی الشرکۃ وعائلاتھم
قارئین عربی رسم الخط کی اس مختصر سے جملے پر نظر پڑتے ہی گھبرائیے گانہیں بلکہ بالکل اسے اُسی طرح برداشت کیجئے گا جس طرح اب تک نا اہل حکمرانوں کو کیا ہوا ہے۔ دراصل اسکا مطلب ہے۔۔۔’’ہفتہ 6 مارچ 2010 کو تمام آفس سٹاف اور ان کی فیملز کے لئے کمپنی نے المضمیہ الربیعیکا اہتمام کیا ہے‘‘۔ مزید کچھ بھی لکھنے سے پہلے بہتر ہوگا کہ پہلے آپ المضمیہ الربیعیکے بارے میں جان لیں۔
المضمیہ الربیعی عربی میں کیمپ یا کیبنٹ کو جبکہ الربیعی سے مراد بہار ہے۔ یعنی camping Spring یا موسم بہار میں خیمہ
زنی۔۔۔۔
یہ کویت کی بہت پرانی روایت ہے جو شروع تو نو مبر سے ہوتی ہے جبکہ اسکا اختتام 31 مارچ کو ہو تاہے لیکن یہ فروری اور مارچ کے مہینوں میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ جابجا لا تعداد خیمے لگنے سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ صحرا میں بھی جنگلی پھولوں نے کھلنا شروع کر دیاہے ۔ عربی سکولوں میں چھٹیاں بھی اسی مناسبت سے ہوتی ہیں اورہر سال ہزاروں لوگ ان مخصوص مہینوں میں روٹین لائف سے فرار حاصل کر کے اپنے اہل خانہ اور دوست احباب کے ۔ساتھ اچھا وقت گزارتے ہیں، اس دوران قیام کی مدت انکی مرضی پر منحصر ہوتی ہے جوکہ عموماً ہفتوں پر محیط ہوتی ہے۔اس پکنک کیلئے ذاتی خیمے بھی خریدے جاتے ہیں جبکہ کرائے پر بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں، ایک خیمے کا یومیہ کرایہ کم سے کم 50 دینار ہوتا ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ کا انحصار لینے والی کی مرضی پر ہوتاہے۔ یا پھر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اقسام سہولیات پر ہوتاہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں ؟فٹ بال یاوالی بال کا کورٹ، بیسٹ لائٹ ،DVD یا ٹی وی یا پھر مختصر یہ کہ ڈیلکس، سپر ڈیلکس یا فائیو سٹار ۔۔۔۔ بہت سی کمپنیاں بھی لوگوں کی سہولیات کیلئے کام کرتی ہیں ۔
جبکہ یہاں یہ امر بھی وضاحت طلب ہے کہ میرے لئے آپ کے لئے یا پھر یہاں مقیم کسی بھی دوسری قومیت کیلئے یہ شوق پالنا نا ممکن ہے۔ اسلئے یہ صحرائی تفریحی صرف کو یتیوں کا ہی خاصہ ہے جو معدنی تیل کی پیش بہا دولت سے مالا مال ہیں۔ عام طور پر 2 سے تین بڑے خیمے ایک فیملی کیلئے کافی ہوتے ہیں کیچن کیلئے ایک الگ خیمہ ہوتا ہے۔ جبکہ باتھ رومز عام طور پر ایمونیم کے بنائے جاتے ہیں اور کام کاج کیلئے خاد مائیں اور خادم بھی ساتھ آتے ہیں۔
کھانے پینے کے دلدادہ خیمہ نشینی میں اشیاء خوردونوش کا کچھ زیادہ ہی اہتمام کرتے ہیں، ناشتے میں دیگر لوازمات کے ساتھ ساتھ کھجور یں، باجیلا، مقامی مٹھائیاں المدحسا اور بکلاوہ کے علاوہ زعفران اور الائچی والا دودھ اورمختلف قہوے اجتماعی ناشتے کا خاص حصہ ہے۔ دو پہر اور رات کے کھانوں پر عموماً بار بی کیو کرتے ہیں اور ہوٹل ڈیلوری کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہتا ہے۔ ایمرجنسی کیلئے فرسٹ ایڈ بکس بھی اشیاء ضرورت کا اہم حصہ ہے۔ بڑے لوگ کا رڈز کھیلنے، شیشہ وحقہ پینے اور بات چیت میں مشغول رہتے ہیں۔ جبکہ بچے اور جوان فٹ بال والی بال کھیلتے گھوڑے، اونٹ کی سواری کرتے ہیں، ہر سال اس طرح انہی مہینوں میں یہ لوگ کئی کئی دن صحرا میں گزارتے ہیں بسااوقات تو مرد حضرات اپنی جاب پر بھی یہی سے آتے جاتے ہیں۔
جبکہ ایک دن کی Campingکچھ اس طرح ہوتی ہے کہ لوگ صحرا میں صبح جا کر شام کو لوٹ آتے ہیں۔ اسکے لئے منی الصور کا Camping area کافی اچھا اور محفوظ ہے جو سمندر کے قریب ہے۔ یہاں پر مخصوص خطے کی حد بندی کر کے کافی تعداد میں خیمے لگا دئیے ہیں،ہر خیمے میں قالین، چار کر یہاں، لیکر میز اور بار بی کیو کے لئے کوئکوں والی انگھینٹی موجود ہے۔ لیکن یہ علاقہ صرف کویت امل کمپنیKOC کے سٹاف کیلئے مخصوص ہے اور یہاں باقائدہ سیکورٹی انتظام ہے۔ اب میں سلسلہ انہی سطروں سے جوڑتی ہوں کہ سٹاف کے لئے بھی الضمیہ الربیعی کا اہتمام کیاگیا ۔ جس میں شرکت کیلئے ہم نے نا جانے کافیصلہ کیا ،روانگی کے لئے صبح 8بجے کا وقت طے پایا جبکہ جلد از جلد اہل خانہ کی تعداد سے آگاہ کرنا لازم تھا۔ مگر ہم نے سوچ لیا تھا کہ ناکام عاشقوں کی طرح صحرا میں ریت چھاننے سے تو بہتر ہے کہ گھر رہ کر مزے سے دن گزار یں لیکن اگلے ہی روز سے ایک دوسرے کے ارادوں کے پھانپنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔جس سے ہم بھی محفوظ نہ رہے اور اچانک ایک عربی ساتھی کے کچھ اس طرح پوچھنے پر گھبرا گئےUr Wife going اور اہم حیران و پریشان کہ یا اللہ ہم Husband کب سے بن گئے لیکن وہ ہم سے ہمارے شوہر نامدار کے بارے میں پوچھنا چاہ رہے تھے۔بارہا دفعہ انہی الفاظ کو کئی اور ساتھیوں سے سنتے کے بعد ہم اسکی تحہ تک پہنچ گئے کہ یہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ؟یقیناًمعلوم ہونے کے بعد آپ کو بھی ان پر ترس آئے گا کہ ان بچاروں کو اپنی شریک حیات کو خوش رکھنے لئے اسی طرح جی حضوری کرنی پڑتی ہے جتنا ہمارے حکمرانوں کو امریکہ کی۔کہنے کو تو مجازی خدا مگر کام سارے نا خداؤں جیسے ۔یعنی اتنا ہی تضاد جتنا ہمارے حکمران اعلیٰ کے قول و فعل میں اور پھر انگریزی سے اتنے ہی پیدل ۔

جاری ہے

…..

اپنا تبصرہ لکھیں