آج سے تقریباً پانچ سال پہلے میں ایک ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی میں ملازم اور گنجان آباد علاقوں میں اپنی موٹر سائیکل پے وزٹ کرتا تھا اس لیئے اکثر کبھی محمود آباد، منظور کالونی، اختر کالونی وغیرہ آنا جانا لگا رہتا تھا، وہاں مجھے اکثر ایک شخص دکھائی دیتا کبھی وہ بارش کے دنوں میں لوگوں کی بند موٹر سائیکلوں کو اسٹارٹ کرتا نظر آتا تو کبھی بند گاڑیوں کو دھکا لگاتے، وہ جب بھی دکھائی دیتا اُس کے چہرے پے ایک دلفریب مسکراہٹ ہوتی، ایک واقف کار دکاندار نے بتایا کہ یہ شخص اکثر اُن بزرگوں یا خواتین کے گھر جو بازار نہیں آ سکتے بنا اجرت لیئے راشن وغیرہ بھی پہنچا دیتا ہے، وقت گزرتا گیا لیکن وہ شخص اپنے اعمال کی وجہ سے میرے ذہن میں نقش ہوگیا، پچھلے دنوں میرا ایک سرکاری ہسپتال جانا ہوا وہاں میرا دوست معروف سرجن ہے میں اُس کے کمرے میں داخل ہو رہا تھا کہ اچانک وہی درویش جو کئی سال پہلے خدمتِ خلق کرتا دکھائی دیتا تھا دوست کے کمرے سے نکلتا دکھائی دیا شاید وہ مجھے نہیں پہچان پایا لیکن میں نے اُسے پہچان لیا مگر روکنا مناسب نا سمجھا، میں نے سرجن دوست کو اُس کے بارے مختصراً بتایا جسے وہ منہ کھولے ہونقوں کی طرح سُنتا رہا، اُس کے بعد جو کچھ دوست نے بتایا اُسے سُن کر میں اپنے آنسو ضبط نا کرپایا، اُس نے بتایا کہ وہ شخص پچھلے سات سال سے کینسر کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہے، اور یہ بات وہ بخوبی جانتا ہے، ٹیوشن پڑھا کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے، اُس کی خواہش ہے کہ بس اُس کے بچے جلد از جلد اپنے پیروں پے کھڑے ہو جائیں، ہم ڈاکٹروں کو بھی حیرت ہے کہ وہ ابھی تک زندہ کیسے ہے کیونکہ کینسر آخری اسٹیج کو بھی عبور کر چُکا ہے، میں نے جب یہ سُنا تو مجھے اپنے رب کی رحمانیت پے یقین اور بھی پختہ ہوگیا، بے شک دعائیں کبھی رائیگا نہیں جاتیں، واقعی اُس گمنام درویش نما شخص نے مجھے ایک نئی جہد دے دی اور میں نے عہد کیا کہ روزانہ اللہ پاک کی عبادت کے ساتھ ساتھ کم از کم انسانیت سے بھرپور ایک نیکی ضرور کرونگا تاکہ وقتِ ضرورت جب پیسہ بھی کام نا آئے تو دعائیں اپنا اثر دکھا سکیں