جب ہم کہیں نہ ہوں گے، تب شہر بھر میں ہوں گے

اس   بات   کا  مجھے   ہمیشہ   از   حد   افسوس رہے گا کہ  ایک   ہی   شہر   کے  باسی  ہونے   کے باجود  میں  جون   صاحب   کے در پر   حاضری نہ  دے سکا ، اور شرف  ِ  باریابی سے محروم رہا، جون صاحب قلندر تھے، اگلی  صدی  کے انسان تھے، آج کے دور   کے سقراط  تھے، تا عمر   زہر  پیتے  رہے،

جب ہم کہیں نہ ہوں گے، تب شہر بھر میں ہوں گے
پہنچے گی جو نہ اُس تک، ہم اُس خبر میں ہوں گے
تھک کر گریں گے جس دَم، بانہوں میں تیری آ کر
اُس دَم بھی کون جانے، ہم کس سفر میں ہوں گے
اے جانِ! عہد و پیماں، ہم گھر بسائیں گے، ہاں
تُو اپنے گھر میں ہو گا، ہم اپنے گھر میں ہوں گے
میں لے کے دل کے رِشتے، گھر سے نکل چکا ہوں
دیوار و دَر کے رِشتے، دیوار و دَر میں ہوں گے
تِرے عکس کے سِوا بھی، اے حُسن! وقتِ رُخصت
کچھ اور عکس بھی تو، اس چشمِ تر میں ہوں گے
ایسے سراب تھے وہ، ایسے تھے کچھ کہ اب بھی
میں آنکھ بند کر لوں، تب بھی نظر میں ہوں گے
اس کے نقوشِ پا کو، راہوں میں ڈھونڈنا کیا
جو اس کے زیرِ پا تھے وہ میرے سر میں ہوں گے
وہ بیشتر ہیں، جن کو، کل کا خیال کم ہے
تُو رُک سکے تو ہم بھی اُن بیشتر میں ہوں گے
آنگن سے وہ جو پچھلے دالان تک بسے تھے
جانے وہ میرے سائے اب کِس کھنڈر میں ہوں گے

جونؔ ایلیا

پیشکش ؛ انیس

اپنا تبصرہ لکھیں