خواجہ حسن نظامی کی تصنیف ’’بیگمات کے آنسو‘‘ سے ایک دکھ بھری تاریخی کہانی نذرِ قارئین ہے، جو انہوں نے شہزادی کی زبانی قلم بند کی ۔یہ ایک درویشنی کی سچی بپتا ہے، جوزمانے کی گردش سے گزریں۔ ان کا نام کلثوم زمانی بیگم تھا۔ یہ دہلی کے آخری مغل بادشاہ ابوظفر بہادر شاہ کی لاڈلی بیٹی تھیں۔ وہ بیان کرتی ہیں۔
’’جس وقت میرے بابا کی بادشاہت ختم ہوئی اور تاج و تخت لٹنے کا وقت قریب آیا تو دلّی کے لال قلعہ میں ایک کہرام مچا ہوا تھا، در ودیوار پر حسرت برستی تھی، اُجلے اُجلے سنگِ مرمر کے مکان کالے سیاہ نظر آتے تھے۔ تین وقت سے کسی نے کچھ نہ کھایا تھا۔ڈیڑھ برس کی زینت میری گود میں تھی اور دودھ کے لیے بلکتی تھی، فکر اور پریشانی کے مارےہم سب اسی یاس و ہراس کے عالم میں بیٹھے تھے کہ حضرت ظلِ سبحانی کا خاص خواجہ سرا ہم کو بلانے آیا۔ آدھی رات کا وقت، سناٹے کا عالم، گولوں کی گرج سے دل سہمے جاتے تھے لیکن حکم سلطانی ملتے ہی حاضری کے لیے روانہ ہوگئے۔ حضور مصلے پر تشریف رکھتے تھے، تسبیح ہاتھ میں تھی۔ جب میں سامنے پہنچی، جھک کر آداب بجالائی۔ حضور نے نہایت شفقت سے قریب بلایا اور فرمانے لگےکلث،’’کلثوم لو اب تم کو خدا کو سونپا، قسمت میں ہوا تو پھر دیکھ مل لیں گے، تم اپنے خاوند کو لے کر فوراً کہیں چلی جاؤ، میں بھی جاتا ہوں، جی تو نہیں چاہتا کہ اس آخری وقت میں تم بچوں کو آنکھ سے اوجھل ہونے دوں، پر کیا کروں ساتھ رکھنے میں تمھاری بربادی کا اندیشہ ہے، الگ رہو گی تو شاید خدا کوئی بہتری کا سامان پیدا کردے۔‘‘اتنا فرما کر حضور نے دستِ مبارک دعا کے لیے بلند کیے جو رعشہ کے سبب کانپ رہے تھے، دیر تک آواز سے بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے رہے.
’’خداوندا! یہ بے وارث بچے تیرے حوالے کرتا ہوں ، یہ محلوں کے رہنے والے جنگل ویرانوں میں جاتے ہیں، دنیا میں ان کا کوئی یارومددگار نہیں رہا۔ تیمور کے نام کی عزت رکھیو اور ان بے کس عورتوں کی آبرو بچائیو پروردگار!،یہی نہیں بلکہ ہندستان کے سب ہندو مسلمان میری اولاد ہیں اور آج کل سب پر مصیبت چھائی ہے، میرے اعمال کی شامت سے ان کو رُسوا نہ کر اور سب کو پریشانیوں سے نجات دے‘‘۔
اس کے بعد میرے سر پر ہاتھ رکھا، زینت کو پیار کیا اور میرے خاوند مرزا ضیاء الدین کو کچھ جواہرات عنایت کر کے نورمحل صاحبہ کو ہمراہ کر دیا جو حضور کی بیگم تھیں۔پچھلی رات کو ہمارا قافلہ قلعہ سے نکلا، جس میں دو مرد اور تین عورتیں تھیں۔ مردوں میں ایک میرے خاوند مرزا ضیاء الدین اور دوسرے مرزا عمر سلطان ،جس وقت ہم لوگ رتھ میں سوار ہونے لگے صبح صادق کا وقت تھا، تارے سب چھپ گئے تھے ،مگر فجر کا تارا جھلملا رہا تھا، ہم نے اپنے بھرے پرے گھر پر اور سلطانی محلوں پر آخری نظر ڈالی تو دل بھر آیا اور آنسو اُمنڈنے لگے۔ نواب نورمحل کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور پلکیں ان کے بوجھ سے کانپ رہی تھیں۔ صبح کے ستارے کا جھلملانا نورمحل کی آنکھوں میں نظر آتا تھا۔
آخر لال قلعہ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوکر کورالی گاؤں میں پہنچے اور وہاں اپنے رتھ بان کے مکان پر قیام کیا۔ باجرے کی روٹی اور چھاچھ کھانے کو میسر آئی، اس وقت بھوک میں یہ چیزیں بریانی، متنجن سے زیادہ مزیدار معلوم ہوئیں۔ ایک دن رات تو امن سے بسر ہو،ا مگر دوسرے دن گردونواح کے جاٹ گوجرجمع ہوکر کورالی کو لوٹنے چڑھ آئے۔ سیکڑوں عورتیں بھی ان کے ساتھ تھیں جو چڑیوں کی طرح ہم لوگوں کو چمٹ گئیں۔ تمام زیور اور کپڑے ان لوگوں نے اُتار لیے۔ جس وقت یہ سڑی بسی عورتیں اپنے موٹے موٹے میلے ہاتھوں سے ہمارے گلے کو نوچتی تھیں تو ان کے لہنگوں کی ایسی بو آتی تھی کہ دم گھٹنے لگتا تھا،اس لوٹ مارکے بعد ہمارے پاس اتنا بھی باقی نہیں رہا جو ایک وقت کی روٹی کو کافی ہوسکتا تھا۔ حیران تھے کہ دیکھیے اب اور کیا واقعہ پیش آئے گا۔ زینت پیاس کے مارے رو رہی تھی، سامنے سے ایک زمیندار نکلا، میں نے بے اختیار ہوکر آواز دی بھائی تھوڑا پانی اس بچی کو لادے۔ زمیندار فوراً ایک مٹی کے برتن میں پانی لایا اور بولا،’’آج سے تو میری بہن اور میں تیرا بھائی‘‘۔ یہ زمیندار کورالی کا کھاتا پیتا آدمی تھا، اس کا نام بستی تھا، اس نے اپنی بیل گاڑی تیار کر کے ہم کو سوار کیا اور پوچھا کہ جہاں تم کہو پہنچا دوں۔ ہم نے کہا کہ اجاڑہ ضلع میرٹھ میں میرفیض علی شاہی حکیم رہتے ہیں، جن سے ہمارے خاندان کے خاص مراسم ہیں، وہاں لے چل ۔ بستی ہم کو اجاڑہ لے گیا، مگر میرفیض علی نے ایسی بے مروتی کا برتاؤ کیا، جس کی کوئی حد نہیں، صاف کانوں پر ہاتھ رکھ لیے کہ میں تم لوگوں کو ٹھہرا کر اپنے گھربار تباہ کرنا نہیں چاہتا۔وہ وقت بڑا مایوسی کا تھا۔ ایک تو یہ خطرہ کہ پیچھے سے انگریزی فوج آتی ہوگی، اس پر بے سروسامانی کا یہ عالم کہ ہرشخص کی نگاہ پھری ہوئی تھی جو لوگ ہماری آنکھوں کے اشاروں پر چلتے اور ہروقت دیکھتے رہتے تھے کہ ہم جو کچھ حکم دیں فوراً پورا کیا جائے، وہی آج ہماری صورت سے بے زار تھے۔ شاباش ہے بستی زمیندار کو کہ اس نے زبانی بہن کہنے کو آخر تک نبہایا اور ہمارا ساتھ نہ چھوڑا۔ لاچار اجاڑہ سے روانہ ہوکر حیدرآباد کا رُخ کیا۔ عورتیں بستی کی گاڑی میں سوار تھیں اور مرد پیدل چل رہے تھے۔ تیسرے روز ایک ندی کے کنارے پہنچے ،جہاں کومل کے نواب کی فوج کا پڑاؤتھا، انھوں نے جو سنا کہ ہم شاہی خاندان کے ہیں تو بڑی خاطر کی اور ہاتھی پر سوار کرکے ندی سے پار اُتارا۔ ابھی ہم ندی کے پار اُترے ہی تھے کہ سامنے سے انگریزی فوج آگئی اور نواب کی فوج سے لڑائی ہونے لگی۔میرے خاوند اور مرزا عمر سلطان نے چاہا کہ نواب کی فوج میں شامل ہوکر لڑیں، مگر رسالدار نے کہلا بھیجا کہ آپ عورتوں کو لے کر جلدی چلے جایئے ،ہم جیسا ہوگا بھگت لیں گے۔ سامنے کھیت تھے ،جن میں پکی ہوئی تیار کھیتی کھڑی تھی۔ ہم لوگ اس کے اندر چھپ گئے۔ ظالموں نے خبر نہیں دیکھ لیا یا ناگہانی طور پر گولی لگی۔ جو کچھ بھی ہوا ایک گولی کھیت میں آئی، جس سے آگ بھڑک اُٹھی اور کھیت جلنے لگا۔ ہم لوگ وہاں سے نکل کر بھاگے۔ پر ہائے! کیسی مصیبت تھی ہم کو بھاگنا بھی نہ آتا تھا،گھاس میں اُلجھ اُلجھ کر گرتے تھے۔ سر کی چادریں وہیں رہ گئیں، برہنہ سر حواس باختہ ہزار دِقت سے کھیت کے باہر آئے۔ میرے اور نواب نورمحل کے پاؤں خونم خون ہوگئے۔ پیاس کے مارے زبانیں باہر نکل آئیں۔ زینت پر غشی کا عالم تھا۔ مرد ہم کو سنبھالتے تھے، مگر ہمارا سنبھلنا مشکل تھا۔نواب نورمحل تو کھیت سے نکلتے ہی چکرا کر گر پڑیں اور بے ہوش ہوگئیں۔ میں زینت کو سینےسے لگائے اپنے خاوندکا منہ تک رہی تھی اور دل میں کہتی تھی کہ الٰہی ہم کہاں جائیں، کہیں سہارا نظر نہیں آتا۔ قسمت ایسی پلٹی کہ شاہی سے گدائی ہوگئی لیکن فقیروں کو چین و اطمینان ہوتا ہے، یہاں وہ بھی نصیب نہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔